ایک موہوم سی امید ہو اور یاس آئے
مرے محبوب کبھی تجھ کو بھی احساس آئے
تشنگی دیکھ کے اس شوخ جوانی کی تجھے
اے صنم تیرے لبِ تر کو کبھی پیاس آئے
مہکی مہکی سی فضا میں یوں معطر ہے چمن
جیسے پھولوں سے تری خوشبوئے انفاس آئے
بہرِ الفت تو بنا ڈالا ہے دل تو نے خدا
پر محبت تری دنیا میں کسے راس آئے
غمزدہ ہوں میں بھی اک عمر سے فرقت میں تری
میری فرقت میں بھی اے کاش تجھے یاس آئے
اتنا بیتاب ابھی اے دلِ بےتاب نہ ہو
صبر کر اور کہ وہ اور ذرا پاس آئے
یونہی شاہیؔ نے اٹھایا تھا قلم آج ذرا
جو بھی احوال تھے مخفی سرِ قرطاس آئے

4
14
شکریہ جناب

0
جناب ضُعفِ ردیف دیکھ لیجیئے -

جناب ضُعفِ ردیف دیکھ لیجیئے -

0
جی ضرور

0