ایک موہوم سی امید ہو اور یاس آئے |
مرے محبوب کبھی تجھ کو بھی احساس آئے |
تشنگی دیکھ کے اس شوخ جوانی کی تجھے |
اے صنم تیرے لبِ تر کو کبھی پیاس آئے |
مہکی مہکی سی فضا میں یوں معطر ہے چمن |
جیسے پھولوں سے تری خوشبوئے انفاس آئے |
بہرِ الفت تو بنا ڈالا ہے دل تو نے خدا |
پر محبت تری دنیا میں کسے راس آئے |
غمزدہ ہوں میں بھی اک عمر سے فرقت میں تری |
میری فرقت میں بھی اے کاش تجھے یاس آئے |
اتنا بیتاب ابھی اے دلِ بےتاب نہ ہو |
صبر کر اور کہ وہ اور ذرا پاس آئے |
یونہی شاہیؔ نے اٹھایا تھا قلم آج ذرا |
جو بھی احوال تھے مخفی سرِ قرطاس آئے |
معلومات