نظامِ بزمِ مئے لاالہ کا حل دے مجھے
فقط زباں ہی نہیں بازوۓ عمل دے مجھے
ہزار جملۂ جرأت نشاں کی کیا حاجت
جو ایک حرفِ جگر چاک بر محل دے مجھے
حریفِ جاں کو شکایت ہے زورِ بازو سے
مسل کے رکھ دوں وہ قدرت اے لم یزل دے مجھے
ہر ایک گام پہ آ لپکوں فتنہ سازوں کو
عطاۓ خاص سے وہ حیلۂ اجل دے مجھے
مرے رفیقوں میں جبریل ہو ضروری نہیں
مگر وہ قوتِ بازو بس ایک پل دے مجھے
بدل کے رکھ دوں میں شاہیؔ ! جہان‌ِ نو کی روش
مرے لہو میں وہ گرمی خدا آج کل دے مجھے

1
16
شکریہ جناب

0