کسی دن پھر ستم گر ! دوست داری کو میں آؤں گا
قسم ، واللہ ! نبھانے رسمِ یاری کو میں آؤں گا
ہوئی مدت کہ ہیں محروم آنکھیں لطفِ گریہ سے
کوئی دم تیرے در پر آہ و زاری کو میں آؤں گا
میسر گر ہوا مجھ کو کبھی فرصت کا اک پل بھی
ترے عشرت کدے پر جاں سپاری کو میں آؤں گا
توقع تجھ سے کیا رکھوں ، جو مل جائے غنیمت ہے
نہ دے گر مجھ کو تو عزت ، تو خواری کو میں آؤں گا
ستم کش ! کب تلک جور و جفا کی ضربِ کاری ہو
دکھانے اب کہ دل کی زخم کاری کو میں آؤں گا
اگر منظور ہو ساقی ! تجھے اس رند کی جرأت
تو تیرے مے کدے پر بادہ خواری کو میں آؤں گا

1
39
شکریہ محترم