آج بھی نہ آۓ تم
آج بھی میں بے قرار
دل شکستہ دل فگار
غم کشیدہ ، سوگوار
اشک ریز و اشکبار
ڈھونڈتا رہا تمہیں
رہ گزار رہ گزار
آج بھی ہواؤں میں
شمع جھلملاتی ہے
آج بھی فضاؤں میں
یاس گنگناتی ہے
آج بھی یہ چاندنی
دل مرا دکھاتی ہے
آج بھی دھواں دھواں
لگ رہا ہے آسماں
آج بھی ہے غمزدہ
چاند تارے کہکشاں
آج بھی اداس ہے
رنگ و روپ کا جہاں
آج بھی یہ ریت ہے
دل پہ تہمتِ ریا
آج بھی یہ رسم ہے
اہلِ عشق بے وفا
آج بھی رواج ہے
حسن والے با صفا
آج بھی یہ رنج ہے
مجھ سے کیا ہوئی خطا
شام کیوں خموش ہے
رات کیوں خفا خفا
صبح تیر و تار کیوں
تیز و تند کیوں صبا
آج بھی اے منتظر
میں تمہاری راہ پر
لے کے اپنی چشمِ تر
دل پریشاں خوں جگر
دیکھتا رہا میں رہ
پر نہ آیا نامہ بر
آج بھی یہ بادہ کش
حسن و عشق میں ہے گم
نامرادِ مے کدہ
نا امیدِ جام و خم
پر شرابِ دید بھی
ساقیا ! نہ لاۓ تم
آج بھی نہ آۓ تم

1
17
شکریہ