اے ! تری امید میں ، میں کھا رہا ہوں پیچ و تاب
روز و شب تیرے تصور میں سراپا اضطراب
دل کے آئینے میں تیری اک حسیں تصویر ہے
جس کی شوخی پر ہے شیدا اہل دل کا انتخاب
ہر نفس بیدار رکھتی ہے تری یہ جستجو
لحظہ لحظہ یہ مرے اعصاب پر ہے اب عذاب
وصل کی امید میں بیتاب جاں رہتا ہوں میں
ہجر کے آزار سے ہے تلخ اب میرا شباب
ایک مدت سے ہوں بیٹھا آنکھ فرشِ رہ کیے
اے مرے محبوب ! اب تو ہوجا مجھ پر بے نقاب
اب نہیں منظور شاہیؔ جستجوۓ صبح و شام
ایک عرصے سے ہوا جاتا ہوں میں خانہ خراب

1
14
شکریہ محترم

0