کہتا ہوں وہی بات سکھاتی ہے جو فطرت |
کچھ خودسےکہوں مجھ کو نہیں اتنی جسارت |
کہنے کو تو کافر کی اطاعت نہیں منظور |
سچ ہے کہ یہی تجھ کو ہے منظور اطاعت |
خود کو تو سیاست سے بھلے جتنا بچا لے |
حق بات یہی ہے کہ یہ ہے دورِ سیاست |
پنہاں ہے تری آنکھ سے اقوام کی سازش |
اور تو ہے کہ پڑھتا ہے کتابوں میں سیاست |
تعریفِ سیاست میں ہی الجھے ہوۓ ہیں سب |
ہے کس میں ذرا تو ہی بتا عزمِ قیادت |
گو مجھ کو کتابوں کی سیاست نہیں بیر |
لیکن کہ میں پڑھتا ہوں زمانے کی سیاست |
ہے میرے رفیقوں میں بھی اک عام سا یہ روگ |
دل عزم سے خالی ہے کتب بینی بکثرت |
آنکھوں کو ذرا کھول کے اطراف کو بھی دیکھ |
چھائی ہے فضاؤں میں یہاں کیسی یہ وحشت |
بہتر ہے کہ خاموش تماشائی بنا رہ |
دے سکتا نہیں شاہؔی کو گر ہمت و جرأت |
معلومات