یہ بارش یہ قطرے یہ دریا یہ دھاریں
یوں لگتا ہے جیسے کسی کی طلب میں
یہ چشمِ فلک سے اتر کر زمیں پر
میری ہی طرح عیش و مستی سے روٹھے
کسی سنگ دل کی محبت کے مارے
غم و رنج و دکھ ، درد دل سے لگائے
نگاہوں میں حسرت کی دنیا سجاۓ
زمانے کی رو میں بہے جارہے ہیں
چلے جا رہے ہیں چلے جا رہے ہیں
چلے جا رہے اس مسافر کی مانند
کہ جس کا کوئی ہم سفر بھی نہیں ہے
نہ منزل نہ منزل کی پر شوق راہیں
نہ وصلِ رخِ مہر و مہ کی بشاشت
نہ ہجرِ دیارِ محبت کی وحشت
نہ چہرے پہ سلوٹ نہ مسکاں لبوں پر
کسی ریل گاڑی کی پہیوں کی مانند
نہ جانے کدھر یہ چلے جا رہے ہیں
چلے جا رہے ہیں چلے جا رہے ہیں
مرے دل کی دھڑکن کو آواز دے کر
نگاہِ تصور کو پرواز دے کر
ٹھہرتی ہواؤں کو چھیڑے ہوۓ یہ
کہیں نغمۂ شوق کو ورغلاتے
کہیں سازِ ہستی کو آہنگ دیتے
کہیں بلبل و گل کے سنگ گنگناتے
لبوں پر غزل کی دھنک اور دل میں
بپا کوئی محشر کیے جا رہے ہیں
چلے جا رہے ہیں چلے جا رہے ہیں

1
20
شکریہ

0