آداب عرض ساقی |
لے آؤ جو ہے باقی |
مہلک ہو یا ہو شافی |
ہر مے ہے مجھ کو کافی |
کیا حال ہے سناؤ |
کچھ اپنا بھی بتاؤ |
لیکن رکو ذرا کہ |
پہلے مری ہی سن لو |
کہ دل فگار ہوں میں |
کچھ بے قرار ہوں میں |
شکوہ گزار ہوں میں |
آتا ہوں شوق سے میں |
اس بزم میں تمہاری |
لیکن یہ کیا کہ تم میں |
ہوتی ہے اپنی خواری |
تم ہی بتاؤ پیارے |
میں نے یہ کب کہا ہے |
مجھ کو سبو پلاؤ |
جو ہوسکے میسر |
مجھ کو وہی پلاؤ |
بادہ ہو جام و مینا |
جو چاہو لے کے آؤ |
پر اے ستم کے خوگر |
جور و جفا کے پیکر |
یوں بزمِ دوستاں سے |
مجھ کو نہ تم اٹھاؤ |
وقعت مری نگہ میں |
اپنی نہ تم گھٹاؤ |
میری بھی بزمِ مے میں |
تم بھی کبھی جو آؤ |
محفل ہے عام میری |
ہر بزم بزمِ شاہی |
گھر میرا جابجا ہے |
در میرا سب پہ وا ہے |
آتے ہیں آنے والے |
اے دوست تم بھی آؤ |
پر دل کے سلسلوں میں |
دولت کبھی نہ لاؤ |
الفت کے مے کدوں سے |
ثروت کے خم ہٹاؤ |
یہ دل کے گلستاں ہیں |
الفت کے بیج ڈالو |
الفت کے گل کھلاؤ |
سوچو ! تمہیں ذرا یہ |
اس دورِ خود غرض میں |
کوئی کہیں کیوں آئے |
آتا ہوں میں کہ مجھ کو |
دل بستگی ہے تم سے |
پر آج یہ بھرم بھی |
جاتا رہا ہے میرا |
بے آبرو ہوا ہوں |
جو بزمِ غیر میں اب |
کوئی مجھے کیوں پوچھے |
کوئی مجھے کیوں جانے |
صد چاک ہے مرا دل |
محزوں ہے پیکرِ گل |
خاموش ہے یہ بسمل |
پھیکا ہے رنگِ محفل |
دل کا نہ حال پوچھو |
اب اس سے کچھ نہ پوچھو |
دردوں کا سلسلہ ہے |
اک زخم بے دوا ہے |
اک آہ بے دعا ہے |
بلبل ہو غنچہ ، گل ہو |
گلشن تمام ویراں |
مغموم سی فضا ہے |
اب بزمِ دوستاں سے |
یہ دل مرا خفا ہے |
اتنا بھی اے ستم گر |
بے کس پہ ظلم مت کر |
بارِ غمِ جہاں ہے |
اس جانِ ناتواں پر |
جس بار کے تلے یہ |
دب کر بکھر گیا ہے |
دیکھو ابھی یہیں تھا |
اب کہ کدھر گیا ہے |
چھوٹے سے اس جہاں میں |
ڈھونڈو تو مل بھی جاؤں |
دیکھو ادھر ادھر کہ |
میں بھی یہیں کہیں ہوں |
معلومات