؛ مکالمہ؛ |
ایک حضرتؔ اور لیڈرؔ |
حضرت: |
اے شوخ جواں ! اہلِ جنوں ، عزم کی صورت |
کہتے ہیں مجھے گوشۂ تنہائی میں حضرت |
تو شیخِ حرم ، پیرِ عجم ، اہلِ قلم ہے |
تو وارثِ صفہ ہے ، تو بن پیرِ طریقت |
تو دین کا داعی ہے شریعت کا منادی |
دنیا تری منزل نہیں کر دین کی خدمت |
مشکل ہے یہاں دین و شریعت کو بچانا |
یہ عہدِ فتن ہے کہ کر اب دین میں شدت |
اس دور میں ایمان بچانا ہے ضروری |
ہر آن کہ خطرے میں ہے اب دین و شریعت |
ایمان و تیقن میں ہو ہر لحظہ اضافہ |
تسبیح و نمازوں کی کر اب خوب ہی کثرت |
کچھ کام تجھے اس کے سوا ہے کے نہیں ہے |
رہتی ہے زباں پر تری ہر وقت سیاست |
جو راہِ سیاست میں لگاتا ہے خودی کو |
ہے اس کے مقدر میں جہانوں کی ذلالت |
تجھ جیسے جوانوں سے بہت آس تھی مجھ کو |
پر دیکھ کے اب تجھ کو مجھے ہوتی ہے حسرت |
پھر جوڑ کے وہ کہنے لگے ہاتھوں کو اپنے |
گر سمجھو تو ہے تیرے لیے ایک نصیحت |
تعلیم و تعلم کو شعار اپنا بناؤ |
اس دور میں زیبا نہیں یہ تخت و حکومت |
ہے علم و عمل ، زہد و تصوف ترا مسلک |
کہ عابدؔ و یعقوبؔ سے اشرفؔ سے ہے نسبت |
اُس دشتِ جنوں میں آ جہاں دھوپ نہیں ہے |
ہر جا کہ ہے آرام و سکوں، راحت و عزت |
آخر میں دبے لفظوں میں کہنے لگے مجھ سے |
کوشش تھی کہ بس چھین ہی لے میری بصیرت |
تو خاک نشیں ہے تیری جاگیر مصلی |
ہے ہند کے شاہوں کی غلامی تری فطرت |
لیڈر : |
گستاخ اگر مجھ کو نہ گردانیں اے حضرت ! |
کچھ کہنے کی میں شاہؔی کروں تھوڑی سی جرأت |
مجھ سے تو یہی کہتا ہے ہر لمحہ مرا دل |
صد حیف ! کہ دنیا میں ہے بے بس تیری ملت |
اغیار کی چوکھٹ پہ تری قوم پڑی ہے |
کھوئی ہے کہاں اب کہ تیری قومی حمیت |
میں ہم سفرِ راہِ وفا مدنؔی و سندھؔی |
حاصل ہے مجھے حضرتِ محمودؔ سے نسبت |
یہ عزت و آرام نہیں کس کو ہے پیاری |
لیکن کہ جفاکش ہے مری شوخ طبیعت |
اب دیکھی نہیں جاتی ہے اس قوم کی حالت |
جس قوم نے صدیوں کی جہانوں پہ حکومت |
افسوس کہ محکوم ، جہاں میں ہے مسلماں |
کھوئی ہے مسلماں کی کہاں شوکت و سطوت |
آنکھوں نے مری دیکھی ہے آسام کی حالت |
برما میں سریّا میں مسلمان کی حالت |
غرناطہ و بغداد کا تازہ ہے ابھی زخم |
میں ہندی مسلماں کو نہ بننے دوں گا عبرت |
احساس بھی ہے مجھ کو کہ ملت کا بھرم ہوں |
حاصل ہے مجھے خالدؔ و حیدرؔ کی نیابت |
میں چرخ نشیں ہوں مری جاگیر مصلی |
فطرت میں رکھی ہے مری شاہوں کی امامت |
لازم ہے کہ میں سینہ سپر مرد بنوں کہ |
اسلام بھی مسلم بھی ہے آقا کی امانت |
میں وارثِ یرموک و احد خندق و خیبر |
پھر کیوں نہ کروں قوم و شریعت کی حفاظت |
اس دور میں ملت کا تحفظ ہو وہ جس سے |
مجھ کو تو نظر آتا ہے اک زورِ سیاست |
گر چاہوں تو بن سکتا ہوں میں پیرِ طریقت |
لیکن مری ملت کو ہے لیڈر کی ضرورت |
شاہؔی؛ |
ہرچند کہ مجموعۂ اسلاف بنوں گا |
میں دین کی خدمت بھی ، قیادت بھی کروں گا |
معلومات