جانے کس پر جان و دل وارا ہوا اک شخص ہوں |
رنج و غم ، حسرت سے دل پارا ہوا اک شخص ہوں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
دردِ دل کس سے کہوں میں ، کون کرتا ہے یقیں |
زخمِ دل کے واسطے یاں ابنِ مریم بھی نہیں |
آہ ! مرے معصوم دل کو کچھ سکوں ملتا کہیں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
سینۂ سوزاں تھا کب سے شعلۂ آتش فشاں |
دے وہ کیوں حرفِ تسلی کہ ملے تسکینِ جاں |
توڑ دی امید بھی اب ، کیا یقیں اور کیا گماں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
کس قدر مغرور صبح ہے کس قدر بیتاب شام |
منتظر ہے تشنہ لب پر دور ہے مینا و جام |
میں کہ کیوں فرطِ محبت میں ہوا بدنامِ عام |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
دولت و ثروت کا بھوکا یہ جہاں بھی خوب ہے |
خانہ آبادی کو یہ خالی مکاں بھی خوب ہے |
غم کے ماروں کے لیے یہ آستاں بھی خوب ہے |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
آہ ! یہ حرص و طمع ، لالچ کا ہے کیسا جہاں |
ایک سکہ سے بھی سستی ہے یہاں انساں کی جاں |
الاماں سو بار اس دنیا سے یا رب ! الاماں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
کیا ہے اس کے واسطے یہ رنگ و بوئے آسماں |
جس کی دنیا تنگ تر ہے ، تنگ تر ہے کل جہاں |
جس کا کل سرمایہ ہی ہے روٹی کپڑا اور مکاں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
مے کدے کا تیرا ساقی کیا عجب دستور ہے |
حسن اپنے بانکپن پر کس قدر مغرور ہے |
عشق آوارہ بے چارہ ہر نفس مجبور ہے |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
ہوں مسلسل رہ گزر پر ہے یہ کس کی جستجو |
بن گیا میرا تبسم میرے دل کو ہاۓ و ہو |
اشک افشانی کیا کم تھی چشمِ دل روتی لہو |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
سامنے منزل ہے میرے یا وہ صحرا کا سراب |
زیست کیا ہے ، ہر طرف بکھرا ہوا رنگین خواب |
مفت میں عزت گئی ، رسوا ہوا میرا شباب |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
کس قدر بے حس ہیں انساں ، کس قدر بگڑا سماج |
جاہلیت کی روایت ، جاہلوں کا سامراج |
قوم و ملت میرا کل تھا آہ ! مگر یہ میرا آج |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
جانے کس کی جستجو ہے جانے کس کی ہے تلاش |
مغربی تہذیب کی پروردہ یہ فکرِ معاش |
کردیا ہے روز و شب کو دل فگار و دل خراش |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
کس کو دکھلاؤں گریباں ، زخمِ دل ، دردِ نہاں |
زندگی کتنی اذیت ناک ہوتی ہے یہاں |
عمر بھر کے اس مسافر کی یہی ہے داستاں |
آرزوۓ زیست سے ہارا ہوا اک شخص ہوں |
گردشِ ایّام کا مارا ہوا اک شخص ہوں |
معلومات