ماضی کا سہانہ موسمِ گل اس دورِ خزاں میں پھر لے آ
کہ کیف و سرور و مستی میں پھر جھوم اٹھے بد مست صبا
ہر سمت سکوت و خاموشی چھائی ہے فضا پر یہ کیسی
جو توڑ دے لمحوں کی بندش وہ جذبِ دروں کر پھر پیدا
فریاد کرے ہیں مے خانے یہ ٹوٹے سبو یہ پیمانے
اے ساقی ! ذرا فریاد بھی سن ان بادہ کشوں کو ڈھونڈ کے لا
جو جامِ محمد میں بھر کر توحید کی مے کو چھلکائے
آباد جہاں میں پھر سے کرے توحید کے مے خانوں کو خدا
تکبیرِ مسلسل کے نعروں سے گونج اٹھے پھر سارا جہاں
ہر دل کی صدا ہو اے مولی ! دنیا میں رہے بس نام ترا
جن صحرا نشینوں کے دم سے آباد کبھی یہ دنیا تھی
ان صحرا نوردوں کا دے جگر ان صحرا نشینوں کی دے ادا
اسلام کی عزت کی خاطر پھر بھیج دے مولی کوئی عمر
یا مجھ کو ہی فاروقِ اعظم کا دورِ حکومت کردے عطا
مانا کہ گریباں چاک نہیں پر عزم نہیں بیباک نہیں
شاہؔی کو عطا ہو پھر بھی مگر وہ عزم و جنوں از فضلِ خدا

1
34
شکریہ