اک شب کہ پریشاں تھا میں ہنگامۂ دل سے |
خاموش و ہراساں تھا میں محرومِ جسارت |
قابوں نہ تھا مجھ کو مرے اندازِ سخن پر |
کی طاقتِ گفتار نے تھی مجھ سے بغاوت |
تھا بحرِ تخیل میں بھی طوفاں کوئی برپا |
اس پر مرے جذبات کی موجوں کی شرارت |
چھوٹا مرے ہاتھوں سے بھی تھا ضبط کا دامن |
دیکھی میری آنکھوں نے جو مذموم روایت |
جو دل میں تھا اک دم مرے ہونٹوں پہ یوں آیا |
بیتاب مرے جذبوں نے کی گویا حماقت |
ہرچند کہ بچپن سے یہی میں نے سنا تھا |
مومن کے لیے ساری زمیں کی ہے بشارت |
کیا راز ہے جبریلؔ کہ معراج کی شب میں |
اس مکیؔ و مدنیؔ نے کی اقصی میں امامت |
کہنے لگے وہ ذاتِ امیںؔ روحِ قدسؔ یہ |
ہے قدس و فلسطین اس امت کی وراثت |
نوری ہوں میں خاکی سے بھی واقف ہوں ولیکن |
مدت ہوئی جاتی رہی مومن کی فراست |
معلوم ، کیا، بربادیٔ پیہم کا سبب ہے |
یہ جملۂ ناحق کہ " فلسطین عرب ہے " |
معلومات