شکستِ فاش دی ہے جس نے اکثر شہسواروں کو
اسے اپنے ہی لشکر کی کوئی کمزوری لے ڈوبی
کیا ہے بر سرِ پیکار رسوا مردِ میداں کو
چلی آئی ہے صدیوں سے یہی اس قوم کی خوبی
نہ بچ پایا کوئی بھی مردِ غازی کم نگاہوں سے
وہ شیرِ خوارزمؔ ہو یا کوئی ٹیپوؔ یا ایوبیؔ
نہ ہو پیدا کوئی ملت فروش اس قوم میں شاہیؔ
علاجِ صادقؔ و جعفرؔ سرِ بازار سرکوبی

1
15
پیام حاضر کی تصنیف کے دوران کسی خاص پس منظر میں سلطان جلال الدین خوارزم شاہی اور ملت اسلامیہ کو اپنی گھٹیا سازشی منصوبوں سے پیہم نقصان پہنچانے والے ضمیر فروشوں کے تئیں یہ مضمون میرے ذہن میں آیا ، جس پر حتی الامکان کوششوں کے باوجود بھی کچھ لکھنے سے قاصر رہا ،
آج اتفاق سے دوران تکرار شعر نے اپنی آمد کا احساس دلایا اور مزاج میں شعریت محسوس ہونے لگی ، چوںکہ بندہ اس حوالے سے نہایت حریص واقع ہوا ہے اسلیے جلد از جلد تکرار سے فراغت حاصل کی اور احاطہ دار العلوم میں واقع باغیچوں کے گرداگرد ٹہلنے لگا : شب جمعہ رات ١ تا ۲ : ؂
شاہیؔ ارریاوی