گلشنِ عالم میں ہے وہ سر زمیں رشکِ عدن
جس جگہ بھی صاحبِ اسرار ہیں جلوہ فگن
کیا تجلی ہوگی ان کے طورِ سینا پر کلیم
جن کے جلووں سے ہے روشن آج تک کوہ و دمن
ہیں ہزاروں گل مرے گلدستۂ اسلاف میں
چند ہی گل سے معطر ہے مرا سارا چمن
اے چراغِ انجمن افروز کہ ہے کہ سرنگوں
جس کے آگے مہرِ عالم تاب کی پہلی کرن
اے کہ تجھ پر ہو فدا یہ ماہ و انجم، کہکشاں
جس نے میرے ذوق کو بخشا ہے اندازِ سخن
دے گیا جو میرے ادراک و بصیرت کو جلا
لے گیا جو کھینچ کر نوخیز کو بزمِ کہن
جانشینِ حضرتِ محمود شیخؔ الہند ہوں
جانشینِ بو المحاسنؔ ، جانشینِ بو الحسنؔ
ہے تمناۓ دلِ شاہؔی کہ ہو یہ بھی کبھی
ثانیِ اقبالؔ اور آزادؔ سا اہلِ سخن

1
66
. ہیں ہزاروں گل مرے گلدستۂ اسلاف میں
. چند ہی گل سے معطر ہے مرا سارا چمن

. ؁گلدستۂ اسلاف؁

یوں تو میرے گلدستۂ اسلاف میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں گلِ رنگیں ہیں مگر وہ گلِ نشاط آور کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو سے سارا گلشنِ حیات معطر ہے ، جنہوں اس نوخیز کے ادراک و بصیرت کو جلا بخش کر بزمِ کہن کا امین بنایا اور جنہوں نے خاکسار کے ذوقِ گفتار کو اندازِ سخن بخشا اور جن کے جلووں سے آج تک کوہ و دمن روشن ہیں وہ چند گل جن سے گلدستۂ شاہؔی معطر ہے
یعنی حضرت شیخ الہند محمود الحسنؒ دیوبندی ، حضرت ابو المحاسن سجادؒ ، سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ ، علامہ محمد اقبالؒ اور محی الدین ابو الکلام آزادؒ

. ؁گلدستۂ اسلاف