یوں جذبۂ جنوں سے اٹھ کہ پھر اے ابنِ بو ترابؔ |
قریب ہو کہ پھر سے ہو ان خیبروں کا سدِ باب |
"آں عہدِ رفتہ باز گشت ایں زمانہ زود تر " |
کہ کہہ رہی ہے اب یہی مری زبانِ اضطراب |
کہ جذبۂ جنوں سے ہی ہے یہ جہانِ ہست و بُود |
اسی سے شرق و غرب کا طلوع صفت ہے آفتاب |
نہ تیغ و تیر و سنگ سے نہ جلوۂ فرنگ سے |
ہے جذبۂ جنوں سے ہی ترے جہاں میں انقلاب |
نہ ہو جنوں تو تو نہیں ، جو تو نہیں ، تو کچھ نہیں |
کہ جیسے ریگ زار میں ہو دل فریب اک سراب |
ہو جذبۂ جنوں سے ہی ترے جگر کی پرورش |
یہی ہے تیری قوم کا نمایاں وصفِ انقلاب |
جو شرع و دیں کی فکر ہے تو لے جنوں سے کام تو |
یہی جنون ہو ترا کرے جہاں کا احتساب |
اے ملک و دیں کے پاسباں ، اے عہدِ رفتہ کے نشاں |
بڑھاۓ جا قدم ابھی ، ابھی جہاں ہے بے حساب |
ہر ایک ذرہ دست بستہ ہے حضورِ یزد میں |
ہو عمر تیری جاوداں ، ہو خضر تیرے ہمرکاب |
یہی ہے کائنات کی حقیقتوں کا انکشاف |
رہے گا اس کا نام بس اسی کے یار فتح یاب |
ہرایک سو ہو دہر میں ترے نقوش مرتسم |
ہو مہر و مہ کی انجمن یا بحر و بر کے پیچ و تاب |
ہو پیکرِ جنوں شباب ، رنگ و بو سے بے نیاز |
یہی ہو تیرے ذوق کا اے شاہؔی حسنِ انتخاب |
معلومات