بیٹھتی ہے پاس میرے ایسی شرمائی ہوئی
جیسے کوئی حور رو ہو خلد سے آئی ہوئی
روپ کیا صبحِ درخشاں رنگ کیا رنگِ شفق
آتشیں رخسار و لب اور آنکھ سرمائی ہوئی
شکوۂ اغیار کیا کیسی رقابت کا گلہ
لے کے وہ عہدِ وفا جب خود ہی ہرجائی ہوئی
ہوتے ہیں وہ بے تکلف ہم سے اس انداز سے
صاف لگتا ہے یہ رنگت کھینچ کر لائی ہوئی
خود ہی میں کہتا رہا سب سے " تکلف بر طرف "
شوخیٔ فطرت ہی اپنی وجہِ رسوائی ہوئی
ہاں یہ سچ ہے شاہؔ جی کہِ ایک مدت ہو گئی
طبعِ شوخ و شنگ پر سنجیدگی لائی ہوئی

0
11