بیٹھتی ہے پاس میرے ایسی شرمائی ہوئی |
جیسے کوئی حور رو ہو خلد سے آئی ہوئی |
روپ کیا صبحِ درخشاں رنگ کیا رنگِ شفق |
آتشیں رخسار و لب اور آنکھ سرمائی ہوئی |
شکوۂ اغیار کیا کیسی رقابت کا گلہ |
لے کے وہ عہدِ وفا جب خود ہی ہرجائی ہوئی |
ہوتے ہیں وہ بے تکلف ہم سے اس انداز سے |
صاف لگتا ہے یہ رنگت کھینچ کر لائی ہوئی |
خود ہی میں کہتا رہا سب سے " تکلف بر طرف " |
شوخیٔ فطرت ہی اپنی وجہِ رسوائی ہوئی |
ہاں یہ سچ ہے شاہؔ جی کہِ ایک مدت ہو گئی |
طبعِ شوخ و شنگ پر سنجیدگی لائی ہوئی |
معلومات