آہ ! مسلم ! گلستانِ ہند کے اے نسترن |
خون سے رنگین ہے کیوں تیرا گُل گوں پیرہن |
جبر و استبداد کا کیسا سماں ہے ہندؔ میں |
ظلم کی دہشت سے لرزاں ہے وہاں کوہ و دمن |
شاہراہوں کی ہے زینت طفلِ گہوارہ وہاں |
کیا قیامت آئی ہے بے گھر ہوئے ہیں مرد و زن |
آہ ! تجھ سے کیا کہوں اے شاعرِ آتش نوا |
خاک و خوں ہے ملتِ اسلامیہ در ایں چمن |
ملک و ملت کی حفاظت میں رہے جو پیچھے ہم |
عظمتِ رفتہ ہوئی ہے آج ہم پر طعنہ زن |
ہاہاکاری ، افراتفری ، ہاۓ و ہو ، چیخ و پکار |
نالہ و شیون سے قائم ہے یہاں کی انجمن |
تنگ ظرفی دیکھیے اس قوم کے افراد کی |
ہم جنہیں کہتے نہیں تھکتے کبھی بھی ہم وطن |
آٹھ سو سالہ مروت کا یہی انعام ہے |
دے رہے ہیں یہ ہراک احسان کے بدلے کفن |
گویا ہندوستاں نہیں یہ کوئی گورستان ہے |
مسلموں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے یہ وطن |
پا نہیں سکتا کبھی وہ دہر میں اعلی مقام |
جل رہا ہو جس وطن میں بے کسوں کا تن بدن |
لٹ رہی ہے آبرو بھی ملکِ ہندوستان کی |
حرکتوں پر ان کی ہیں اقوامِ عالم خندہ زن |
ہے مرے بحرِ تخیل میں یہ شاہؔی موجزن |
"کیسے ہوگا ملک راہِ ارتقاء پر گامزن" |
معلومات