وہ مردِ جواں عزم ، جواں سال، جواں دل |
ہوتا ہے کبھی صدیوں میں پیدا کوئی قابل |
وہ ذات یگانہ تھی زمانے میں نمونہ |
تنہا ہی بھری بزم تھی تنہا بھری محفل |
وہ اہلِ خرد اہلِ جنوں اہلِ نظارہ |
وہ عزم و جنوں پیکرِ اوصاف کے حامل |
دیکھے جو تری آنکھ زمانے کے خد و خال |
گویا کہ زمانہ تری آنکھوں میں ہو داخل |
گفتار کی موجوں میں امنڈتا ہوا طوفاں |
کردار کے پیکر میں تو دریا بھی تو ساحل |
پرواز میں اونچائی نگاہوں میں بلندی |
مہر و مہ و انجم نہ ثریا تیری منزل |
کیا دل تھا کہ تھا جذبۂ ایثار سے سرشار |
دل درد سے رنجور مگر چہرے سے خوش دل |
گِر گِر کے سنبھل کر یہ ہنر ہم کو سکھایا |
آزادی کا طالب کبھی ہوتا نہیں بزدل |
اب گلشنِ ہندی میں نہیں بلبلِ نالاں |
ہو تری جگر سوز نواؤں میں جو شامل |
اُس جوش و جنوں عزم و وفا سے یہ پرے ہیں |
افسوس ! کہ ہے اب بھی تری قوم تو غافل |
جو شعلہ جہاں سوز ترے دل میں تھا روشن |
وہ شعلہ جوانوں کو کہاں اب کی ہو حاصل |
ہیں میرے رفیقوں میں بھی کچھ مردِ جگر دار |
صد حیف! کہ ہیں زندہ مگر مردہ و بے دل |
آگاہ کرے پھر سے کوئی قوم کو ان سے |
شمشیر و سناں لیس ہیں جو بازوۓ قاتل |
پیغام ہے اس دور کا پھر سے کوئی آزادؔ |
سوئی ہوئی ملت کو جگاۓ کوئی عاقل |
نقشِ رہِ آزاد پہ چل تو بھی اے شاہیؔ! |
مشکل ہے ، مگر تیرے لیے کچھ نہیں مشکل |
تو راہِ وفا کا کوئی بچھڑا ہوا راہی |
ہو دور نگاہوں سے ، مگر دل میں ہو منزل |
معلومات