پھر ہوئی بارشِ آتشِ گل صنم
جل اٹھا دل مرا بھر گئی چشمِ نم
یوں ستم در ستم سے گئے آج ہم
آگ ہی آگ ہے جانِ جاں تن بدن
ریشمی زلف و رخسار شیریں دہن
حسن کی بارشوں میں وہ بھیگا بدن
اس پہ انگڑائی لی ہاۓ توبہ شکن
زخم دل کو لگا جان کو رنج و غم
حسن شوق و طلب عشق یاس و الم
یہ ستم ناتواں پر خدا کی قسم
دیکھ کر دستِ قدرت کی رنگینیاں
حسنِ شہکار کی دلنشیں وادیاں
رنگِ گل میں بکھرتی ہوئی شوخیاں
ہم نے جانا کیوں آباد ہیں سولیاں
دل فگارو چلو آج کوۓ صنم
آج تو کچھ رکھیں عاشقی کا بھرم
ختم ہونے کو ہے آج زورِ ستم
آؤ آؤ چلیں عاشقو دمبدم
لڑکھڑاتے قدم ڈگمگاتے قدم
کرچلیں آج ہم داستانیں رقم
عشق کے حوصلے حسن کے سب ستم

1
25
شکریہ صاحب

0