نعرۂ مستانہ پھر سے اے کہ عالم گیر کر |
گونج اٹھے ساری دنیا یوں بلند تکبیر کر |
پھر سے ہوجا مضطرب جاں، اے صفت سیلِ رواں |
پھر گزر جا دشت و دریا کے دلوں کو چیر کر |
خاک و خوں ہے ملتِ اسلامیہ اے چارہ گر ! |
جذبۂ ایثار سے پھر قوم کی تعمیر کر |
اب نہیں وہ مردِ میداں ، اب نہیں وہ رزم گاہ |
گردشِ ایام کی اب عقل سے تسخیر کر |
مات دے شطرنج کے اس بازی گر کو اے رقیب ! |
فیلِ بے زنجیر کو یوں حلقۂ زنجیر کر |
حکمت و دانائی سے بھر پور کوئی چال چل |
جذبۂ عزم و جنوں سے سرنگوں تقدیر کر |
حادثاتِ دہر کو یوں ٹال نہ تقدیر پر |
اٹھ کہ اے غافل ! کوئی اب کارگر تدبیر کر |
ہے یہ دورِ مکر و تزویر و فریب و چھل ، کپٹ |
عقل و دانش کی اے شاہؔی ! تیز تر شمشیر کر |
معلومات