خیالِ نرگسِ مستانہ روز لاؤں میں |
کہاں ہے وقت کہ تجھ پر نثار جاؤں میں |
نظر ہے شوق سراپا دل و جگر مشتاق |
زباں خموش لب و دہن کشمکش میں ہے |
قلم اٹھا بھی لبِ تر سے آشنا بھی ہوا |
مگر کہاں سے لکھوں ذہن کشمکش میں ہے |
کہ سطر شیدا ہے نوکِ قلم کی جنبش پے |
ورق درخشاں ہے امیدِ لطفِ خامہ پر |
کسی مصورِ فطرت کی کاغذی تصویر |
ہوئی ہی جاتی ہے قربان میرے نامہ پر |
اسی مذاقِ فسانہ سے دل بہلتا ہے |
اسی عذابِ حقیقت سے جی چراتا ہوں |
کہ جس نزاکتِ گُل رُو سے دل ، جگر خوں ہے |
اسی حسین ستم گر پہ جاں چھڑکتا ہوں |
مجھے جنونِ محبت کا کوئی شوق نہ تھا |
مگر کہ دل پہ مرا کچھ بھی اختیار نہیں |
فراقِ صحبتِ خوباں پہ سوگوار ہے یہ |
وہ کون پل ہے کہ جس پل یہ بیقرار نہیں |
خزاں رسیدہ سے چہروں کی تازگی کے لیے |
بہارِ حسن کسی دن نگاہِ ناز میں آ |
شکستہ حال دلوں کی کرم نوازی کو |
حسین پیکرِ تصویر کی نیاز میں آ |
ابھی تو شام بھی دلہن سی سج رہی ہوگی |
ابھی تو شب بھی جوانی کی اور جائے گی |
ابھی ستاروں کی گردش بھی تیز ہونی ہے |
ابھی تو صبحِ درخشاں امید لاۓ گی |
امیدِ لطفِ ستم گر سے گو بہل جاؤں |
مگر یہ روگِ جوانی مجھے ستاتا ہے |
بڑے ہی ناز سے پالا تھا شوق جو میں نے |
وہ شوقِ عشق مجھے رات بھر رلاتا ہے |
سو تیری یادوں کو دل سے میں دور رکھتا ہوں |
مبادا ! تیری طلب کا اسے جنون آجائے |
غزل سرائی سے یوں مجھ کو رسم و راہ نہیں |
مگر میں لکھتا ہوں ، دل کو سکون آجائے |
شبانہ روز ترا گیت گنگناؤں میں |
کہاں ہے وقت کہ تجھ پر نثار جاؤں میں |
معلومات