مجھے کیوں تجھ سے پری وش کوئی عناد نہ ہو
کہ تیری یاد میں کھوؤں ، تو کوئی یاد نہ ہو
نگاہِ عشق تو ہر سمت اٹھتی جاتی ہے
نگاہِ حسن مگر جو کہ شاہ زاد نہ ہو
طوافِ شمعِ فروزاں ہی ہے حیات اس کی
پتنگا کیا کہ جو شعلوں میں دل کشاد نہ ہو
ہزار حیف ! ہے اس پر جو راہِ ہستی میں
پہنچ کے منزلِ مقصود با مراد نہ ہو
ہوئی ہے اپنی بھی دل شکنی بزمِ یاراں میں
مگر ہے کوشش پیہم کہ مستزاد نہ ہو
یہ بھی ہے طعنۂ اغیار بزمِ ہستی میں
پسر ! نہ خواہشِ شہرت ہو شوقِ داد نہ ہو
کہیں جو دیکھ لے مجھ کو تو لوگ کہتے ہیں
نہ چھیڑ اس کو ، کہیں بزم میں فساد نہ ہو
بھلے ہی ہوں میں ستم زارِ روزگار اے دل !
نہ دے تو دادِ عقیدت جو اعتماد نہ ہو
جسے طلب ہو مری خود وہ ڈھونڈنے آۓ
نہیں میں حاصل اس کو جو دل کشاد نہ ہو
متاعِ شعر و سخن ہے رہینِ درد و الم
یہی ہے شاہؔی ! تمنا کہ دل یہ شاد نہ ہو

20