اک قدس کا سپاہی کہتا ہے مجھ سے شاہیؔ
جا دیکھ خونِ مسلم دجلہ و فرات میں
مدت سے کی ہے میں نے تدبیر پھر بھی آج
بیٹھا ہوں رزم گاہِ حیات و ممات میں
رہبر ہمارے سارے رہزن کے آشنا ہیں
کس سے امید رکھیں راہِ حیات میں
انجامِ گلستاں سے کچھ سیکھ تو بھی ناداں
ہیں راز کتنے مخفی ان حادثات میں
سامانِ حرب و ضرب میسر نہ ہو اگر
تجھ کو اماں نہیں ہے اس کائنات میں
اے دہر کے مسلماں کر خود کی پاسبانی
مدت سے چھپ کے دنیا بیٹھی ہے گھات میں

1
6
شکریہ محترم

0