میں کہ خود پر نہ پھر رہا قادر
جرم آنکھوں سے جب ہوا صادر
کچھ تو جادو ہے اس کی آنکھوں میں
مجھ کو مسحور کر گیا ساحر
اک نظر ہی کی یہ کرامت تھی
آنکھ فاسق ہے دل ہوا فاجر
کچھ تو انکار وصل سے میرے
کچھ تو بیزار ہجر سے شاطر
وہ جو منکر ہے کلمۂ الفت کا
کیا برا ہے جو کہدیا کافر
گرچہ ناکام ہی تھا عشق اپنا
عشق ہم نے بھی کرلیا آخر
کتنی رسوائی ہے محبت میں
دل سبھنلتے ہی یہ ہوا ظاہر
وہ جو حسرت سے دیکھے جاتے تھے
اب کہ جانا ہے دل کے ہیں تاجر
عشق ان کو نہیں ہوا مجھ سے
زندگی جن کے گرد تھی دائر
وہ بھی خاطر میں اب نہیں لاتا
میں بھی آتا نہ اب اس کی خاطر
میں وہ موتی ہوں بحرِ الفت کا
جس کو غواص کہتے ہیں نادر
یاد آۓ گا آپ کو شاہیؔ
جب بھی گاۓ گا یہ غزل شاعر

1
42
شکریہ محترم