کرگیا پھر سے جنونِ فتنہ خیز
پردۂ عقل و خرد کو تار تار
ہے گرفتارِ من و تو روز و شب
عہدِ نو میں ملتِ گردوں وقار
مدرسہ ناموسِ ملت کا امیں
مدرسہ ملک و وطن کا ہے وقار
مقصدِ تعلیم جز تعمیر نیست
ہے یہی گل کے لیے فصلِ بہار
اہل دانش کی کرم فرمائی سے
بندہ ہے تعلیم ، فن پروردگار
چھین لی تعلیم کی شان و شکوہ
دے کے عصرِ نو نے فکرِ کسب و کار
کچھ نہ کچھ فتنے اٹھے ہر دور میں
عہدِ حاضر میں فریبِ روزگار
صاحبِ دل کے لیے یہ موت ہے
اختلافِ فکر و فن اے کم عیار

0
7