گو محفلِ ہستی میں یہ ناکام بہت ہے |
مومن کے تخیل میں ابھی دام بہت ہے |
صیاد کی قسمت ہے کہ وہ گھات میں بیٹھا |
فہرست میں میرے بھی ابھی نام بہت ہے |
ہے شوقِ شہادت بھی بہت خوب و لیکن |
اس دور میں جینے کا بھی انعام بہت ہے |
یہ ذرّے پہاڑوں کو کہاں زیر کریں گے |
بے چاروں کی تدبیر ابھی خام بہت ہے |
اللّٰه حفاظت کرے اس مردِ جواں کی |
جس سے مری ملت کو ابھی کام بہت ہے |
دو چار ہی پیمانے ابھی ٹوٹے ہیں مے کش ! |
مے خانۂ شاہؔی میں ابھی جام بہت ہے |
معلومات