گو محفلِ ہستی میں یہ ناکام بہت ہے
مومن کے تخیل میں ابھی دام بہت ہے
صیاد کی قسمت ہے کہ وہ گھات میں بیٹھا
فہرست میں میرے بھی ابھی نام بہت ہے
ہے شوقِ شہادت بھی بہت خوب و لیکن
اس دور میں جینے کا بھی انعام بہت ہے
یہ ذرّے پہاڑوں کو کہاں زیر کریں گے
بے چاروں کی تدبیر ابھی خام بہت ہے
اللّٰه حفاظت کرے اس مردِ جواں کی
جس سے مری ملت کو ابھی کام بہت ہے
دو چار ہی پیمانے ابھی ٹوٹے ہیں مے کش !
مے خانۂ شاہؔی میں ابھی جام بہت ہے

1
26
شکریہ دوست