حاکمیت ، سربراہی ، خواجگی آتی نہیں
شوخ فطرت کو اگر سنجیدگی آتی نہیں
ہے گل و بلبل چمن میں خوش نوا خوش رنگ ، پھر
کیوں ترے گلزار میں کچھ تازگی آتی نہیں
شوخ فطرت نوجواں ہوں ، بے تکلف ، خوش مزاج
پھر بھی یہ کہتے ہیں مجھ کو زندگی آتی نہیں
جانتا ہوں بہر صورت ہے تکلف ہی مفید
کیا کروں اے دل مجھے یہ سادگی آتی نہیں
خوبروؤں کو یہ شکوہ چھیڑتا رہتا ہوں میں
ماہ پاروں کو گلہ ہے دل لگی آتی نہیں
گیسو و رخسار کا جب تک نہ ہو ذکرِ حسیں
لوگ کہتے ہیں غزل میں عمدگی آتی نہیں
جب تلک تقلیدِ میر و غالب و سودا نہ ہو
أہل فن کہتے ہیں فن میں پختگی آتی نہیں
کہہ رہے ہیں نکتہ چیں ! گر تو برا مانوں میں کیوں
ہاں یہ سچ ہے شاہیؔ کو سنجیدگی آتی نہیں

3
37
شکریہ جناب

0
واہ واہ کیا کہنے بہت خوب ماشاءاللہ

گیسو و رخسار کا جب تک نہ ہو ذکرِ حسیں
لوگ کہتے ہیں غزل میں عمدگی آتی نہیں
جب تلک تقلیدِ میر و غالب و سودا نہ ہو
أہل فن کہتے ہیں فن میں پختگی آتی نہیں

بہت شکریہ محترم

0