حاکمیت ، سربراہی ، خواجگی آتی نہیں |
شوخ فطرت کو اگر سنجیدگی آتی نہیں |
ہے گل و بلبل چمن میں خوش نوا خوش رنگ ، پھر |
کیوں ترے گلزار میں کچھ تازگی آتی نہیں |
شوخ فطرت نوجواں ہوں ، بے تکلف ، خوش مزاج |
پھر بھی یہ کہتے ہیں مجھ کو زندگی آتی نہیں |
جانتا ہوں بہر صورت ہے تکلف ہی مفید |
کیا کروں اے دل مجھے یہ سادگی آتی نہیں |
خوبروؤں کو یہ شکوہ چھیڑتا رہتا ہوں میں |
ماہ پاروں کو گلہ ہے دل لگی آتی نہیں |
گیسو و رخسار کا جب تک نہ ہو ذکرِ حسیں |
لوگ کہتے ہیں غزل میں عمدگی آتی نہیں |
جب تلک تقلیدِ میر و غالب و سودا نہ ہو |
أہل فن کہتے ہیں فن میں پختگی آتی نہیں |
کہہ رہے ہیں نکتہ چیں ! گر تو برا مانوں میں کیوں |
ہاں یہ سچ ہے شاہیؔ کو سنجیدگی آتی نہیں |
معلومات