سنا ہے ان کا بھی اک خدا ہے
یہ پیارے پیارے یہ بھولے بھالے
یہ ننھے معصوم رب دلارے
کسی کی دھڑکن کسی کے پیارے
کسی کی آنگن کے چاند تارے
ستم گروں کے ستم کو بھایا
غموں کا ان پر پہاڑ ڈھایا
کہ ننھی جانوں کی کیا خطا ہے
سنا ہے ان کا بھی اک خدا ہے
ہر ایک جانب ہے خونی منظر
ہیں اپنے گھر میں یہ گھر سے بے گھر
نہ کوئی خالدؔ نہ کوئی حیدرؔ
ہیں عیش و عشرت میں ان کے رہبر
کبھی تو ان کا حساب ہوگا
حساب بھی بے حساب ہوگا
ہر ایک دل کی یہی دعا ہے
سنا ہے ان کا بھی اک خدا ہے

1
14
شکریہ محترم