زمیں رہی زماں رہا مکیں رہا مکاں رہے |
مگر نہ مل سکا مجھے جو زیرِ آسماں رہے |
کہاں سے لاؤں میں وہ دل جو دردِ عشق میں دکھے |
جو ہجر و وصل سے جدا کہیں شرر فغاں رہے |
نہ دل ، نگہ، نہ عشق ہے، نہ ذوق و شوق و آرزو |
اے درد ! مجھ کو لے بھی چل کہ یہ کشاں کشاں رہے |
یہ دل کہ مضطرب نہیں سراپا اضطراب ہے |
یہ دل وہیں رہے سدا کہ تو جہاں جہاں رہے |
ترے جنون میں پھروں میں صبح و شام دشت میں |
مگر پتہ تو دے کہ اے کہ تو کہاں کہاں رہے |
تری لحد میں نور ہو سرور ہو قصور ہو |
یہ مہر و مہ کی انجمن ہمیشہ ضوفشاں رہے |
ہو ہر نفس یہ جستجو ، ہو ہر نفس یہ آرزو |
کہ تیری راہ پر مرا یہ شعری کارواں رہے |
میں شاعرِ جنون و عزم ، شاعرِ خودی و فقر |
میں ماہیٔ بے آب سا تو بحرِ بے کراں رہے |
زہے نصیب کہ ترا اقبالؔ بھی بلند رہا |
میں شاہؔی کم نصیب ہوں اے کاش ! یہ گماں رہے |
یقیں رہے گماں رہے نہ دل رہے نہ جاں رہے |
یہ بزمِ آرزو مری مگر سدا جواں رہے |
معلومات