عجب تماشاۓ دل ہے یارب |
نہ تابِ جلوہ نہ جنبشِ لب |
پڑی نظر جب سے ماہ رو پر |
نظامِ قلب و جگر ہے بے ڈھب |
ہر ایک انداز سے عیاں ہے |
اداۓ ماہِ تمام یارب |
ہر ایک غم جاں فزا ہو جائے |
میں دیکھوں اس خوش ادا کو جب جب |
نہ پوچھیے یہ جنابِِ والا |
کہ کیسے گزری ہے آج کی شب |
کیا ہے شب انتظار جس کا |
وہ پوچھتا ہے بلائے تھے کب ؟ |
ادھر ادھر کی کیوں بک رہا ہے |
تو سب سمجھتا ہے میرا مطلب |
تمہیں سے روشن ہے محفلِ دل |
اے میری دنیا کے ماہ و کوکب |
تمہیں بھلے ہی نہ یاد ہو کچھ |
مگر مجھے تو ہیں یاد وہ سب |
گزر گیا اب وہ دور ساقی |
مزاجِِ شاہیؔ بخیر ہے اب |
معلومات