عجب تماشاۓ دل ہے یارب
نہ تابِ جلوہ نہ جنبشِ لب
پڑی نظر جب سے ماہ رو پر
نظامِ قلب و جگر ہے بے ڈھب
ہر ایک انداز سے عیاں ہے
اداۓ ماہِ تمام یارب
ہر ایک غم جاں فزا ہو جائے
میں دیکھوں اس خوش ادا کو جب جب
نہ پوچھیے یہ جنابِِ والا
کہ کیسے گزری ہے آج کی شب
کیا ہے شب انتظار جس کا
وہ پوچھتا ہے بلائے تھے کب ؟
ادھر ادھر کی کیوں بک رہا ہے
تو سب سمجھتا ہے میرا مطلب
تمہیں سے روشن ہے محفلِ دل
اے میری دنیا کے ماہ و کوکب
تمہیں بھلے ہی نہ یاد ہو کچھ
مگر مجھے تو ہیں یاد وہ سب
گزر گیا اب وہ دور ساقی
مزاجِِ شاہیؔ بخیر ہے اب

1
18
عجب تماشاۓ دل ہے یارب
نہ تابِ جلوہ نہ جنبشِ لب