اسے نقش کر رہِ لیلاۓ سفرِ جنوں کے نصاب میں
یہ جو داستاں ہے سرِ ورق مری زندگی کی کتاب میں
کوئی مجنوۓ رہِ گم شدہ ، کوئی کہہ گیا مجھے سرپھرا
مرے عزم کا یہ کمال تھا میں نے دریا ڈھونڈا سراب میں
مرا دل تو تھا صنم آشنا مری بے خودی کی تھی انتہا
کبھی خاروخس سے چُنا ، چمن ، کبھی کانٹے ڈھونڈے گلاب میں
کبھی دل جلایا تھا عشق میں کبھی شعلہ پھونکا تھا آب میں
میں نے کیسے کیسے یوں گل کھلائے ہیں اپنے دورِ شباب میں
دلِ بے وفا ، اہلِ جفا ، بیداد گر ، ہرجائیا !
تجھے کیا خبر مرےعشق کی جو ہے جلوہ پیرا حجاب میں
میں ہوں مضطرب، بیتاب جاں ، مرے دل کو شاہؔی سکوں نہیں
کوئی لے چلے مجھے کھینچ کرکسی اہلِ دل کی جناب میں

2
87
شاہؔی تخیلات
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

نوٹ ۔ "سرِ ورق" کی جگہ اگر کوئی صاحب اس کا متبادل پیش کریں تو مہربانی ہوگی
(بغرض اصلاح)

شاہؔی تخیلات
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

نوٹ ۔ "سرِ ورق" کی جگہ اگر کوئی صاحب اس کا متبادل پیش کریں تو مہربانی ہوگی
(بغرض اصلاح)