ولا تَأسَفُوا علٰي فاتَكم ولا تَقنَطُوا من رَحمَتِهْ
وعُودُوا إلٰي ما سَبَقْ وكُونُوا علٰي ذَا السُّلُوكْ
ومَا کاَن مِنْ شَأنِکُم أنْ تُذَلُّوْا و أنْ تُسْتَعْبَدُو
ألا اِسْمَعُوْا وَاعْلَمُوْا " نَحْنُ أبْنَاءُ مَلِكِ الْمُلُوْكْ "

1
17

نحن أبناء الملوک
لأبي أمامه شاه‍ي المولود ١٤٢٠ ه‍ / ١٩٩٩ء

ولا تَأسَفُوا علٰي فاتَكم ولا تَقنَطُوا من رَحمَتِهْ
وعُودُوا إلٰي ما سَبَقْ وكُونُوا علٰي ذَا السُّلُوكْ

ومَا کاَن مِنْ شَأنِکُم أنْ تُذَلُّوْا و أنْ تُسْتَعْبَدُو
ألا اِسْمَعُوْا وَاعْلَمُوْا " نَحْنُ أبْنَاءُ مَلِكِ الْمُلُوْكْ "


ما سبق ؛ جو گزر گیا یعنی ماضی
ذا ؛ اسم اشارہ" اس ، وہ "
سلوک ؛ سلک ، سلوکا " چلنا ، مصدر، راستہ ، طریقہ "
استعبادا ؛ غلام بنانا " مشتق من العبد "
ملک الملوک ؛ بادشاہوں کا بادشاہ یعنی " شہنشاہ "
شہنشاہ گو کہ صرف اللّٰه کے موزوں ہے لیکن یہاں شہنشاہ اپنے مجازی معنی میں ہے جیسے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیرؒ اور یہی ما یراد بہ ہے ؂

اے نوجوانو! سنو ! سنو کہ تم ایک غیور قوم کے غیرت مند فرزند ہو اسلیے تم اپنی کھوئی ہوئی سلطنت و شہنشاہیت پر ادنی بھی تاسف نہ کرو کہ اس سے تمہارے مخالفین کی قوت مزید ترقی پذیر ہوگی اور یاد رکھو کہ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں اسلیے اس کی رحمت سے قطعاً مایوس نہ ہو اور لوٹو اپنے شاندار ماضی اور پے بہ پے فتوحات کی طرف اور معراج مسلمانی کی اس انتہاء کی طرف کہ جہاں ثریا بھی اپنے عروج پر شرمسار اور اپنی کم رفعتی پر دل گرفتہ تھا اور جہاں تسخیر کائنات جیسی عظیم مہم ، تمارے لیے چٹکیوں کا کھیل تھا، آئین جہاں گیری ہو کہ آئین جہاں داری تمہارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی لہذا تم بھی انہیں لوگوں کے طرز حیات کو اپناؤ اور انہیں کے نقشِ راہ پر چل پڑو کہ تمہاری مخالف جماعتیں اس کے بغیر تمہیں دو پل بھی چین سے رہنے نہیں دیں گی ۔

اور سنو کہ تم دنیا کے *ان عظیم شہنشاہوں کے جانشین ہو جن کی نظیر تاریخ عالم میں دور دور تک کہیں نہیں ملتی* گو کہ عصر حاضر میں حکومت و سلطنت تمہارے دسترس میں نہیں ہے لیکن یاد رکھو کہ آج بھی تمہاری رگوں میں وہی خون محو گردش ہے جس نے اپنے جوش و تلاطم سے کبھی دنیا کی عظیم سلطنتوں کو تہہ و بالا کردیا تھا اسلیے یہ تمہاری شان خودداری کو قطعاً زیب نہیں دیتی کہ تم سر راہ ذلیل کیے جاؤ اور کھلے عام مارے جاؤ ، حرماں نصیبی یہ کہ دنیا کی اس ذلیل قوم کے ہاتھوں غلام بنائے جاؤ جس کی اپنی حیثیت باوجودیکہ سلطنت اس کے رحم و کرم پر ہے غلاموں سے ہزار درجہ بد تر ہے اسلیے ایک مہذب قوم اور اس کے غیور فرزندوں کے لیے کسی طور بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ ان غیر مہذب ، ناشائستہ اور بد تہذیب قوموں سے _ کہ زمین جنہیں نگلنے کے لیے بیتاب ہے ، آسمان جن پر برسنے کے لیے غلطاں و پیچاں ہے _ مرعوب ہوجائے *جب کہ تم میں کائنات کی عظیم ہستی ( محمدﷺ) کا جانشیں ، تاریخ عالم کے جانبازوں اور سرفروشوں کے لیے آئیڈیل حیدر کرارؓ کا لخت جگر شبیر جگر دار حسین ابن علیؓ موجود ہے* جس نے جان دینا تو گوارہ کیا لیکن ایک فاجر ( عبید اللّہ بن زیاد ) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو ذلت کی موت سے کہیں زیادہ ناپسند کیا اور بہادروں کی طرح حالات مقابلہ کرتے ہوئے موت کو بھی عظیم بنا دیا اور یوں ظلم و تعدی کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے تاریخ کے تمام جانبازوں اور قافلہ حق کے مت والوں کے لیے وہ شمعِ جہاں افروز روشن کیا کہ جس کی روشنی میں قیادت تک آنے والے غازی و شہسوار ، اور عدل و انصاف کے علمبردار اپنا سفر جاری رکھیں گے ۔

گوکہ یہ ہمارے شایانِ شان نہیں کہ ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اپنے لیے سامان تفاخر تلاش کریں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر ہیں جہاں تحریک نفوس کے لیے ہمیں اس کی شدید ضرورت ہے کہ اس کے بغیر مبادا ہم ہلاک کردیے جائیں ۔
یوں تو اس سلسلے میں محض أبناء الملوک کہنا ہی کافی تھا لیکن اس حقیقت سے دنیا کو کبھی فرار نہیں کہ ہم نے جب تک اس روۓ زمین پر حکمرانی کی ، جبر و استبداد کا خاتمہ کیا اور عدل و انصاف کو فروغ دیا اور اپنی تمام تر جاہ و جلال اور شوکت و جمال کے ساتھ ہمیشہ ملک الملوک ( بادشاہوں کے بادشاہ یعنی شہنشاہ ) کی حیثیت سے اس کے سینے پر حکومت کی خصوصاً ان مخصوص فرمانرواوں کی شکل میں جن کے نام سے اب تک مخالفین کے دل لرزتے ہیں ، سانسیں تھم جاتی ہیں اور کلیجے منھ کو آجاتے ہیں ؂

صفت آزاد خاکی ہوں رہوں کیونکر میں بندش میں
میں شاہیؔ ہوں روایاتِ اسیری توڑ جاؤں گا

مجھے روکو گے کیسے گلستاں کو خاک کرنے سے
کہ شعلہ ہوں بجھا بھی تو شرارہ چھوڑ جاؤں گا

. المتشاعر شاه‍ي الأررياوي

0