اے ارومہ ، یعنی خوشبو یعنی اے گلشنِ دل |
جس سے مہکی مرے جذبات کی سونی محفل |
اے مرے ضبط و سکوں صبر و رضا کے قاتل |
سرمگیں آنکھ ، نظر تشنۂ رخسار پہ تل |
. |
کیوں عطا کی دلِ معصوم کو بسمل کی تڑپ |
موجِ طوفانِ بلا خیز کو ساحل کی تڑپ |
. |
میں کہ معصوم تھا معصوم جوانی تھی مری |
شوخ و چنچل سی جوانی تھی دیوانی تھی مری |
میں کہ اک شوخ جواں تھا یہ نشانی تھی مری |
خالی سر نامہ و عنواں سے کہانی تھی مری |
. |
میرے اس نظم کا عنوان ، کیوں بن بیٹھے ہو |
غالبِ دوراں کا دیوان ، کیوں بن بیٹھے ہو |
. |
ہاۓ وہ جوش و جنوں عشق و محبّت کی شراب |
جذبہ و شوق و تمنا سے تھا بد مست شباب |
ہاۓ کیا رند تھا بیچارہ ہوا خانہ خراب |
کیا قیامت پڑی اس پر جو ہوا جینا عذاب |
. |
زلف و رخسار لب و لہجہ قسم کیا کہیے |
ان کی پر جوش جوانی کا ستم کیا کہیے |
. |
عالمِ عشق و محبّت کا یہ دستور رہا |
عاشقِ زار زمانے میں سدا چور رہا |
حسن بھی اپنی روایات میں مغرور رہا |
عشق بھی اپنے دلِ ناز سے مجبور رہا |
. |
کتنے ذی ہوش یہاں خود سے ہی انجان ہوۓ |
کتنے دیوانے رہِ عشق میں قربان ہوۓ |
. |
راحتِ جاں ، تری امید پہ آیا تھا میں گھر |
دلِ آزردہ لیے آیا تھا زخمی تھا جگر |
میری بیتابی کا تجھ پر نہ ہوا کچھ بھی اثر |
تو نے ڈالی نہیں مجھ پر کبھی الفت کی نظر |
. |
پھر بھی جاناں میں تجھے رشکِ قمر کردوں گا |
تیری چاہت کو زمانے میں امر کردوں گا |
. |
تجھ سے امید بھی اندیشۂ رسوائی بھی |
ہیبت و دہشت و وحشت سے شناسائی بھی |
صبحِ امید بھی بارات کی شہنائی بھی |
غمِ فرقت میں شبِ ہجر کی تنہائی بھی |
. |
خود کو دنیا کے رواجوں سے جدا بھی کر لے |
اپنے محبوب سے آ عہدِ وفا بھی کر لے |
. |
اے پری وش ! مہ و پروین کا تو حسن و جمال |
میں کسی دشتِ جنوں خیز کا آوارہ خیال |
تیرے نظارے سے بیمار طبیعت ہے بحال |
تیری اک دید پہ ہے ہجر کو مطلوب وصال |
. |
میں نے مانا کہ پرستان میں آباد ہے تو |
میرے اس جذبۂ بیتاب کی فریاد ہے تو |
. |
سلسلہ تیری عنایت کا گراں بار رہا |
اشکِ پیہم تیری قربت کا طلب گار رہا |
دلِ بےتاب کو بھی وعدۂ دیدار رہا |
تیری معصوم اداؤں کا فدا کار رہا |
. |
اب کہ اُن شوخ اداؤں کا بھلا کیا کرنا |
تیری قاتل سی نگاہوں کا بھلا کیا کرنا |
. |
چمنِ زیست کو پھولوں سے سجانا تھا تجھے |
آتشِ قلب کو گلزار بنانا تھا تجھے |
دلِ محزوں کی ہر آواز پہ آنا تھا تجھے |
میرے بکھرے ہوئے خوابوں کو بسانا تھا تجھے |
. |
تجھ پہ افسوس ، تری شوخ جوانی پہ ہے تف |
گل بداماں ! ترے جوبن کی روانی پہ ہے تف |
دل نے چاہا تھا کہ حاصل ہو اسے تیرا جوار |
غمِ دوراں کے پریشان کو آجاۓ قرار |
وہ جو کرتا تھا کبھی چین و سکوں تجھ پہ نثار |
تلخ گفتار سے ہے آج وہ وحشت کا شکار |
. |
سرخ رخسار ، لبِ شیریں پہ اب کون مرے |
جان و دل تیرے تبسم پہ فدا کون کرے |
. |
اب تری سانسوں کی خوشبو سے کراہت ہے مجھے |
روپ و رخسار کی رنگت سے قباحت ہے مجھے |
تیری ہر شوخ اداؤں سے عداوت ہے مجھے |
ناگہاں ! رسمِ محبت سے بغاوت ہے مجھے |
. |
دل کے ویرانے کو آباد کیا کیوں آخر |
اپنے دیوانے کو برباد کیا کیوں آخر |
. |
کانپ اٹھے مری روداد سے افلاک آخر |
تیری حسرت نے کیا میرا جگر چاک آخر |
شدّتِ کرب سے آنکھیں ہوئی نمناک آخر |
جرمِ الفت نے کیا مجھ کو بھی بے باک آخر |
. |
اب نہیں خوف زمانے کے خداؤں سے مجھے |
نشۂ تخت میں مدہوش ، نہ شاہوں سے مجھے |
. |
اب کہ مے خانۂ الفت سے صنم جاتا ہوں |
پیکرِ ناز سے پھر کھا کے ستم جاتا ہوں |
اپنے سینے میں چھپائے ہوۓ غم جاتا ہوں |
اٹھ کہ مے خانے سے اب سوۓ حرم جاتا ہوں |
. |
نشۂ عشق میں مخمور نگاہوں کی قسم |
شوخئ حسن کی معصوم اداؤں کی قسم |
. |
جارہا ہوں دلِ غمگین لیے زہرہ جبیں ! |
مجھ کو روکے نہ کوئی جاتا ہوں رنجور و حزیں |
مجھ کو معلوم ہے راحت نہ میں پاؤں گا کہیں |
پھر بھی جاتا ہوں ترے کوچے سے مغرور حسیں |
. |
دلِ بیتاب کو تصویر سے بہلاؤں گا |
اب کہ جاؤں گا تو واپس میں نہیں آؤں گا |
. |
معلومات