نگاہِ شوق کو پھر آج اشکبار کیا
کہ تیری یاد نے پھر مجھ کو بے قرار کیا
اسی امید پہ آۓ گا آنے والا ابھی
تمام شب تری آمد کا انتظار کیا
ہزار بار محبت میں یوں تو جاں سے گئے
مگر وہ تیرِ نظر جس نے دل شکار کیا
لبادہ اوڑھ کے ظالم نے پارسائی کا
مجھے مری ہی نگاہوں میں شرمسار کیا
وہ شخص کہتا ہے دیکھو مجھے محبت سے
کہ جس نے رسوا محبت کو بار بار کیا
یہ تجربہ بھی مجھے زندگی میں خوب رہا
اسی نے دھوکہ دیا جس پہ اعتبار کیا
لگی ہیں تہمتیں مجھ پراسی کی جانب سے
خدایا ! جس پہ کبھی میں نے جاں نثار کیا
اسی کی یاد سے آباد ہے جہاں میرا
کہ جس نے محفلِ ہستی میں مجھ کو خوار کیا
نہیں ہے اس سے کوئی دل لگی نہیں شاہیؔ
یہ راز اس نے سرِ بزم آشکار کیا

1
14
شکریہ جناب