جلوے کیا دکھائے مجھے نایاب گہر نے
کی انجمن آرائی تھی گویا کہ سحر نے
تابانی جو تاروں کی ہے چھائی مری شب میں
دیکھا بھی کبھی ایسا کہیں شمس و قمر نے
ہر موڑ پہ رہزن ہے مگر چلتے ہی جانا
یہ ذوق کہ بخشا ہے مجھے عزمِ سفر نے
چھالے میرے پیروں میں ابھی تک ہیں مگر کہ
چلنا تو سکھایا ہے اسی راہ گزر نے
.
تسکینِ دلِ و جاں تو بہت دور ہے ساقی !
دل سوز کیا پھر سے مجھے دردِ جگر نے
بیزار سے پروانوں کو کیا شمع سے الفت
جب عشق میں پیدا نہ کیا جوش ، اثر نے
ہر بزم میں رسوائی مقدر تری ہوگی
گر بزم کو سنبھالا کسی تنگ نظر نے
بس پھونک ہی دیتا وہ نشیمن کا نشیمن
ہرچند کہ کوشش کی تھی اک صاحبِ شر نے
.
بت توڑ دیے سارے جہالت کے تراشے
بت خانۂ شاہی کے کسی سینہ سپر نے
ادراک و بصیرت سے ہے معمور وہ ہستی
مجھ کو یہ بتایا ہے فقط اس کے ہنر نے
کیا کیا مجھے اندازِ ادیبانہ سکھایے
اس صاحبِ ادراک کی بس ایک نظر نے
کیا چیز ہے تاریخ و روایات نگاری
اس راز سے واقف کیا اک اہلِ نظر نے

1
40
تبصرہ