یہ کیسا شور و غوغا ہے مرے اس قلبِ مضطر میں |
سنا تھا ہیں کئی صدیاں ابھی ہنگامِ محشر میں |
ابھی تو صبح روشن ہے ابھی تو شام دلکش ہے |
ابھی تو بے قراری بھی نہیں ہے ناز پیکر میں |
ابھی تو ماہ پاروں سے تعارف بھی ادھورا ہے |
ابھی تو رات بھی گزری نہیں دیدارِ دلبر میں |
نہ کہہ مجھ سے اے ناصح ! کہ سرِ تسلیم خم کردوں |
کہ ناقص ہے ترا مرشد ، کئی خامی ہیں رہبر میں |
یہ کس بے کس کی نگری ہے یہ کس مظلوم کا گھر ہے |
یہ کس معصوم کا ظالم ! لگا ہے خون خنجر میں |
دلِ ناداں ! کہاں تک ناز ہو اپنی خدائی پر |
خدائی شے ہے وہ جچتی نہیں جو خاکی پیکر میں |
کچلنے کا ہنر پیارے ہمیں بھی خوب آتا ہے |
کہاں سے آئی ہے جرأت یکایک میرے ہمسر میں |
غرور اس خاک کے پتلے میں آخر رکھ دیا کس نے |
یہ خاکی خاک ہی نکلا کمالِ ذاتِ جوہر میں |
مبادا! یہ نہ کہدینا جگر خوں کر دیا میں نے |
کہ تیرِ نیم کش اترے گا تیرے دیدۂ تر میں |
غنیمت ہے کہ میخانہ سلامت ہے ترا ساقی |
ہزاروں دل سلگتے ہیں دلِ ہنگامہ گستر میں |
حریفِ جاں شکستِ فاش تیرا ہی مقدر ہے |
کہ دیکھا ڈوبتے میں نے تجھے بھی خونیں منظر میں |
جو تجھ سے ہو سکے کر جا جو تجھ سے بن سکے لے آ |
ہزاروں جانثار اب بھی ہیں شاہؔی ! میرے لشکر میں |
معلومات