چاک دامن کر گئے ہیں پارہ پارہ ہے قبا |
چھین کر سلطاں گری وہ دے گئے خوۓ گدا |
ہاتھ میں لیکر ہیں بیٹھے کاسۂ دریوزہ گر |
دیکھ تو اے تاج گر ! ان رہ نشینوں کی ادا |
ہیں غلامیت پہ راضی غیر کے محکوم ہیں |
حکمرانوں کی نسل ہیں آہ ! کہ دیکھو ذرا |
ہندؔ ہی کیا دہر میں وہ سوختہ ساماں ہوۓ |
کل تلک جن کے اشارے پر تھا اک عالم فدا |
عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہیں یہ ناآشنا |
خوابِ غفلت میں پڑے ہیں تان کر سویے ، ردا |
دل کی کیفیت بیاں کیسے کروں الفاظ میں |
باغِ ہستی سے ہوئی رخصت جو اب بادِ صبا |
کہہ رہے ہیں مولوی کیونکر سیاست داں بنے |
یا شریعت سے جدا ہو ، یا سیاست سے جدا |
گر بنانا تھا مجھے اک تنگ تخیل مولوی |
کیوں مجھے پیدا کیا شاہوں کی فطرت پر خدا |
بے بسی ، مجبوریاں اس قوم کی تقدیر ہے |
جو ہے بیزارِ مذاھب ، ہے سیاست سے خفا |
میں جو شاہؔی حکمرانوں کی اگر باتیں کروں |
غیر سے نسبت کئے دیتے ہیں یہ مجھ کو سزا |
معلومات