چاک دامن کر گئے ہیں پارہ پارہ ہے قبا
چھین کر سلطاں گری وہ دے گئے خوۓ گدا
ہاتھ میں لیکر ہیں بیٹھے کاسۂ دریوزہ گر
دیکھ تو اے تاج گر ! ان رہ نشینوں کی ادا
ہیں غلامیت پہ راضی غیر کے محکوم ہیں
حکمرانوں کی نسل ہیں آہ ! کہ دیکھو ذرا
ہندؔ ہی کیا دہر میں وہ سوختہ ساماں ہوۓ
کل تلک جن کے اشارے پر تھا اک عالم فدا
عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہیں یہ ناآشنا
خوابِ غفلت میں پڑے ہیں تان کر سویے ، ردا
دل کی کیفیت بیاں کیسے کروں الفاظ میں
باغِ ہستی سے ہوئی رخصت جو اب بادِ صبا
کہہ رہے ہیں مولوی کیونکر سیاست داں بنے
یا شریعت سے جدا ہو ، یا سیاست سے جدا
گر بنانا تھا مجھے اک تنگ تخیل مولوی
کیوں مجھے پیدا کیا شاہوں کی فطرت پر خدا
بے بسی ، مجبوریاں اس قوم کی تقدیر ہے
جو ہے بیزارِ مذاھب ، ہے سیاست سے خفا
میں جو شاہؔی حکمرانوں کی اگر باتیں کروں
غیر سے نسبت کئے دیتے ہیں یہ مجھ کو سزا

1
96
. مذہب و سیاست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے اختلاف کے نتیجے میں
. (معاصرین سے خطاب)

دور حاضر میں ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ نہ تو ہم مذہب میں ہی پختہ ہیں اور نا ہی عصرِ حاضر کے تقاضوں کا ہمیں کچھ خیال ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بے بسی ، مجبوریاں ،لاچارگی، رسوائیاں آج ہمارا مقدر ہے