*؁ غلامی؁*
خوف سے تو لڑکھڑاتی ہے غلاموں کی زباں
میں تو ہوں آزاد بندہ ، ہر نفس ، ہردم ، رواں
ایک صاحب کہہ رہے تھے بر سرِ منبر ، سنو !
اے مسلماں ! ہند میں جب تک ہے رہنا ، تم رہو
ہاں مگر اپنے تمندن سے رہو بیگانے تم
اِس صنم خانے کی لیلی کے رہو دیوانے تم
آٹھ سوسالہ حکومت،جو تمہیں کرنی تھی،کی
سر اٹھا کر چلنا پھرنا ، چھوڑو اب یہ برتری
ہے یہی بہتر کہ بن جاؤ اسیرِ برہمن
تاکہ ہندوستاں میں باقی نہ رہے پھر بت شکن
یہ تو آغازِ تباہی ہے مسلماں کے لئے
جیسے بادِ نیم شب شمعِ فروزاں کے لئے
اندلس کی داستاں شاہد ہے اس پر آج بھی
رفتہ رفتہ چھن گیے تھے، کیسے دیں اور تاج بھی
کوششِ پیہم ہے ان کی ایک دن ہندوستاں
کفر کے باطل خداؤں کا بنے پھر آستاں
اندلس ، بغداد کی دہرائی جائے داستاں
"الاماں" سو بار تجھ سے ہے خدایا "الاماں"
ہے غلامی قومِ مسلم کے لئے یکسر حرام
کہ اسیروں کو نہیں ملتا ہے دنیا میں دوام
بندۂ آزاد ہو تو پھر کرو پیدا نوا
بے بسی ، مجبوریاں تو ہے اسیروں کی ادا
قوم رہتی ہے تمدن سے جہاں میں پائدار
اور تہذیب و تمدن کی بقا ہے اقتدار
دورِ حاضر میں سیاست ہی ہے محرم قوم کی
یہ سمجھ آئی انہیں ، آئی نہ مسلم قوم کی
آہ ! لیکن کیا کروں میں ، کس کو دکھلاؤں جگر
اک طرف رنگین شب ہے ، اک طرف خونی سحر
اشک ریزاں ہیں نگاہیں ، ہے زباں پر ہاۓ ہو
کررہا ہوں میں جنوں میں ہاۓ ! کیسی گفتگو
کوئی تو پوچھے یہ دل سے کیا ہے اس کی آرزو
آہ ! شاہؔی ! پھر سے ہو وہ شان و شوکت چارسو

1
72
*یہ تو آغازِ تباہی ہے مسلماں کے لئے*
. *جیسے بادِ نیم شب شمعِ فروزاں کے لئے*

ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ایک بڑے صاحب کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے وہ اگر چاہیں تو اپنے پروجّوں ( اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِی مِلَّتِنَا ) کی طرف لوٹ آئیں اور اگر نہ چاہیں تو ان کے لیے یہ صلاح ہے کہ وہ اپنے آپ کو کبھی برتر نہ سمجھیں کہ ان کے آباء و اجداد نے کبھی ہندوستان پر برسوں حکومت کی تھی مطلب واضح ہے