آپ کیوں رنجور ہوتے ہیں میاں
ہم ابھی زندہ ہیں زیرِ آسماں
عصرِ حاضر گو کہر آلود ہے
ہے نہاں اس میں ہزاروں کہکشاں
آۓ گی اپنی حکومت بھی کبھی
دیکھ لے گا وہ بھی دن ہندوستاں
پھر جلے گی شمعِ ملت دہر میں
ہوگی پروانوں کی منزل کل جہاں
یاد آجائے گا پھر گم کردہ رہ
چل پڑے گا سوۓ منزل کارواں
کیا زمیں ، کیا پستیٔ تحت الثریٰ
کیا ثریا کو بلندی کا گماں
آسماں کیا ، اک مکاں محدود ہے
شرط ہے شاہیں صفت ہو نوجواں
سارا عالم سرنگوں ہو جائے گا
آۓ گا پھر دہر میں مہدیؔ نشاں
صبر کے زیور سے ہو آراستہ
گوکہ ہے ہنگامہ گستر یہ جہاں
عزم کی شمشیر کو کر تیز تر
سینۂ سوزاں کو کر آتش فشاں
بزدلی زیبا نہیں شاہین کو
عزم و ہمت کا بنالے آشیاں
ہے ابھی بھی دہر میں اک شیر دل
اپنے آبا کی شجاعت کا نشاں
ایک دل جُو اب بھی ہے گرمِ سفر
ملتِ اسلامیہ کا پاسباں
بال بھی بیکا نہ کر پائیں گے یہ
جب تلک شاہؔی ہے ان کے درمیاں

1
57
. *اللّٰهم لك الحمدُ كله*

حضرت الاستاذ حضرت مولانا سلمان بجنوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ ( استاذ الحدیث و الادب جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند) کی جانب سے ناچیز کے لیے ایک مسرت بخش و حوصلہ افزا تحفہ
گو کہ بقول "مرزا غالب" میرا بھی یہی ماننا ہے کہ
"اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو "
"آگہی گر نہ سہی غفلت ہی سہی"
تاہم اگر کوئی چیز (نسبت) مفت میں مل رہی ہو تو اسے ٹھکرانا بھی عقلمندی نہیں
بقول حضرت دوسرا "حقانی القاسمی" "شاہی القاسمی" کی شکل میں...😊

اے کہ تجھ پر ہو فدا یہ ماہ و انجم ، کہکشاں
جس نے میرے ذوق کو بخشا ہے اندازِ سخن

. *؂ شاہؔی ارریاوی ؂*