شکستہ لہجے میں کہنے لگے یہ اہلِ جنوں |
ہے کوئی دہر میں توڑے جو دہریوں کا فسوں |
لبِ خموش پہ یک لخت یہ سوال آیا |
رہے کیوں دہر میں مسلم ہی محوِ خوار و زبوں |
سو اس فراق میں رہتا ہوں میں بھی سرگرداں |
کہ پاسکے یہ مسلماں بھی ایک دم کا سکوں |
یہی ہے آیتِ ترغیب کا تقاضا بھی |
میں تیز گامیٔ منزل میں سب سے آگے رہوں |
بجھا سکی نہ زمانے کی تند خوئی بھی |
چراغِ بزمِ مسلماں ، نہ سوزِ شمعِ دروں |
ہزار بار زمانے نے سر ابھارا پر |
رہا ہمیشہ سے اسلامیوں کے آگے نگوں |
ستم ظریفی یہی ہے جہاں میں مسلم کی |
ملے جو مجھ کو اجازت حضور میں بھی کہوں |
مکن گماں اے کہ تُو " پیدرم بُوَد سلطاں " |
چہ معنی داری تُو اے در جہانِ ہندوسْتاں |
خودی کی طاقت و قوت پہ ہی بھروسہ کر |
خودی میں پیدا ہو یوں جذبہ ہاۓ گونا گوں |
کوئی تماشہ ہو پھر سے تمام عالم میں |
رہا ہے صدیوں سے محوِ تماشہ یہ گردوں |
یہ شور کیسا ہے محفل میں ہر طرف ساقی |
ہوا ہے بزم میں کیا انکشافِ رازِ جنوں |
کہا کسی نے یہ شاہؔی کو دیکھ کر مجھ سے |
یہ ایک شخص سراپا ہے بزمِ عزم و جنوں |
معلومات