کافی نہیں شاہوں کے خیالات ہی شاہؔی
ہر آن ہو اوصافِ سلاطیں کا فدائی
خودداری و غیرت بھی ہو انعام و قناعت
ہے "شاہی عناصر" کے لیے چاروں ضروری

1
22
پیش لفظ

میں بندہ سیاسی ہوں سیاست مرا مذہب
مت دیکھو مجھے فرقہ و مسلک کی نظر سے


یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کی " ت " اور سیاست کی " س " سے مجھے ادنی بھی واقفیت نہیں ہے بالفاظِ دیگر یوں کہیے کہ میں تاریخ و سیاست کی مبادیات سے بھی واقف نہیں ہوں لیکن نا جانے کیوں تاریخ و سیاست سے مجھے جنون کی حد تک دلچسپی ہے ، اک نا دیدہ قوت ہے جس کے زیرِ اثر میں کھنچتا چلا جاتا ہوں ، میرے دل میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ میری تخلیق سیاست باز فطرت پر نہیں ہوئی ، تاہم میں حضور یزد میں اس پر شکر گزار بھی ہوں کہ مجھے قوموں کے عروج و زوال میں سیاسی افکار و نظریات کے کردار سے ادنی سی مناسبت ضرور حاصل ہے

میں دعا گو ہوں کہ مالک الملوک مجھے حکومت سازی کے جوہر سے مالا مال فرمائے ، خداوند قدوس مجھے حکومت و اقتدار کی مذموم ہوس پرستی سے محفوظ رکھے مگر جو ضروری ہے اس کے حصول میں اخلاص و للہیت کے ساتھ آسانیاں بھی میسر فرمائے ، علمِ اسلام کی سربلندی کے لیے اجداد و اسلاف کا قلب و جگر بھی عطا فرمائے اور اقدار و روایات کی پاسبانی میری حیات مستعار کا نصب العین ہو من جملہ یہ کہ ان تمام خوبیوں کو خلاق دو عالم میرے تخلیقی عناصر کے لیے لازمی قرار دے اور یہ اس ذاتِ بے ہمتا پر( کہ سروری فقط اسے ہی زیبا ہے ) نہایت آسان ہے اگر وہ چاہے تو دنیا جہان کے اقتدار کو اسلامیوں کے قدموں میں ڈال دے اور دونوں جہاں کی سرخروئی انہیں ہی نصیب ہو

واقعہ یہ ہے کہ اس دور ناگفتہ بہ میں قلعۂ اسلام کی حفاظت اسبابی نقطۂ نظر سے سیاسی حصار کے بغیر ممکن نہیں جبکہ جنگی حکمتِ عملی اور سیاسی پالیسی بھی یہی رہی ہے کہ محاذ کا جو حصہ زیادہ کمزور ہو وہاں عام معمول سے ہٹ کر قوتیں زیادہ صرف کی جاتی ہیں جبکہ ہم بھی مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں اسلیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس حصے کی جانب سے قلعۂ اسلام کو ہر طرح کے اندیشہ وخطرات سے محفوظ کر کے مستحکم کیا جائے اور سیاسی کمک و رسد کی فراہمی سے اسلامیوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جاۓ

مسئلہ اسلام کا نہیں ہے بلکہ اسلامیوں کا ہے کیوںکہ اسلام کی حفاظت تو الله کے ذمے ہے مگر اسلامیوں کا کیا ان کے تحفظ کے لیے کیا ضروری ہے اور یہی صاحبِ مجموعہ کے پیش نظر بھی ہے ہرچند کہ قلعۂ اسلام کی فصیلیں مختلف سمتوں سے منہدم ہو رہی ہیں جس کا تقاضا تو یہ ہے کہ قلعۂ اسلام کے تحفظ کو ہر جانب سے یقینی بنایا جاۓ اور یہی وقت کی اہم ضرورت بھی ہے لیکن چونکہ بندہ اپنے مزاج میں شعر و سیاست کی آمیزش محسوس کرتا ہے اسلیے اپنے لیے اس محاذ کو زیادہ موزوں سمجھتا ہے

یہی سبب ہے کہ " شاہی تخیلات " ( شاہوں کے خیالات) پر مشتمل اکثر و بیشتر اشعار کا مرکز و محور سیاست و قیادت ، حکومت و اقتدار ہے جبکہ کہیں کہیں نہایت زور بیانی سے کام لیتے ہوئے نہایت شدت کا بھی اظہار کیا گیا ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ عظمتِ اسلام کے پاسبانوں اور ملت اسلامیہ کے دانشوروں کی جماعتیں اس سمت بھی اپنی دانشوری کو بروۓ کار لاتے ہوئے اپنی دور اندیشی اور مستقبل بینی کا ثبوت دیں مجھے نہیں معلوم کہ میری ان ادنی کاوشوں کا نتیجہ کیا ہوگا کیا میں حسن عاقبت سے ہم کنار ہو پاؤں گا یا نہیں مگر ان شاء الله

میں موت پلک کوشش پیہم میں رہوں گا
شاید کہ چراغاں ہو میرے سوزِ جگر سے

خلاصہ یہ کہ اس مختصر سے شعری مجموعہ میں جو بھی اشعار اس قبیل سے ہیں اس کے معانی و مفاہیم مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری اور سیاسی بالا دستی کے سوا کچھ اور نہیں کہ یہی اس شعری مجموعہ " پیامِ حاضرؔ " سے مقصود ہے

وہ جنگ و جدل تیغ و سناں رہنے دو اب کی
یہ دور سیاست ہے چلو چال اے شاطر


. فقط
. شاہی ارریاوی