امید بھی ٹوٹی مری حسرت پہ بھی رویا
یوں محفلِ عالم میں مجھے کیا نہیں بھایا
شرمندۂ تعبیر نہ وہ خواب ہو پایا
جس خواب کی تعبیر کو روتا ہوا سویا
وہ بزمِ جنوں پرور و آور کہ جہاں میں
جس بزم کے چرچے تھے ہوں میں اس کا ہی جویا
کیا کیا تھے گماں محفلِ دیرینہ سے تجھ کو
اے دل کہ تری حسرتِ ناکام پہ رویا
بےنور ہے وہ شمعِ دل افروز اے ساقی !
جس شمع کے پروانے جگر سوز تھے گویا
وہ انجمن آرائی ترے بادہ کشوں کی
مے خانۂ عالم میں وہ اب رنگ نہیں پایا
پیمانے بھی ٹوٹے ترے ، مے کش ہوئے رخصت
شاید کہ میں محفل میں بہت دیر سے آیا

1
36
اک حسرتِ ماضی جو ہمیشہ جگر چاک کرتی ہے ، اک امیدِ مستقبل جہاں کچھ نظر نہیں آتا ، اک شوقِ انجمن آرائی کہ جس کے لیے کچھ دستیاب نہیں ، اک ذوقِ فلک پیمائی جو کبھی ممکن نظر نہیں آتی ، آہ اے گردشِ ایام۔۔۔۔۔۔۔
" ہاں ، دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو "
" دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو "

. محفلِ عالــم .