زباں خموش ، جگر خوں ، نگاہ شرمندہ |
خدایا ! جرأتِ گفتار اب نہیں ہم میں |
رہے جو غازیٔ یرموک و فاتحِ خیبر |
وہ مردِ خالدؔ و کرّارؔ اب نہیں ہم میں |
بھلے ہی رزم میں ان کے بھی دست و بازو ہیں |
مگر کہ بزمِ مسلماں کو اب نہیں یارا |
نظامِ ملتِ بیضا سے جو ہوۓ باغی |
نہیں جہان کے آئیں سے اب کوئی چارا |
ہر ایک سمت ہیں اشکوں کے آج دریا رواں |
بنے ہیں قریہ و بستی بھی اب کہ مقتل گاہ |
بلک بلک کے کلیجے کو چیر دیتی ہے |
سسکتے دل کی دبی دھڑکنوں کی سہمی آہ |
لپک لپک کے در و بام کو یہ چھوتے ہیں |
ہے آج شعلۂ آتـش فشـاں بھی مستی میں |
فلک شگاف شرارے ہیں سوزِ آدم کے |
بپا ہے فتنۂ محشر نگارِ ہستی میں |
ہوئے ہیں چشمِ فلک بھی یوں آج اشک افشاں |
ہر ایک قطرۂ ابرِ کرم ہے انگارا |
فضاۓ گلشنِ عالم بھی محوِ ماتم ہے |
چلے ہے بلبل و گل پر بھی سوگ کے آرا |
سجا ہے سینۂ گیتی پہ کربلائے رفاح |
ہوۓ ہیں پھر سے نگوں آہ ! حسینیوں کے علم |
چلے ہیں خشک دل و جاں لیے یہ سوۓ فرات |
مگر ہیں راہ میں حائل یہودیوں کے قدم |
کرے زمانہ انہیں کیسے بے نقاب آخر |
ہزار رنگ ہیں ان کے ہزار چہرے ہیں |
خداۓ جابر و قہار کے یہ ٹھکرائے |
بساطِ ارض پہ ابلیس کے یہ مہرے ہیں |
یہ کیا غضب ہے کہ دستورِ بزم بدلے گئے |
سفال و ساقی و مینا و مے کدہ سارا |
مزاجِ عالمِ تازہ بھی اس قدر بگڑا |
کیا ہے شعلہ و شبنم کو معرکہ آرا |
ہر ایک داؤ چلے ہیں یہ رزم گاہوں میں |
نظر نہ آئی انہیں بے کسوں کی بیتابی |
یہی ہے سچ کہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں |
عیاں جہاں پہ ہے ان کے لہو کی سفاکی |
کوئی تو آئے بساطِ یہود کو پلٹے |
کوئی تو آئے جو ان کا بھی احتساب کرے |
کسی کے لالہ جگر میں وہ آگ پھر بھڑکے |
حساب ان کا بھی کوئی تو بے حساب کرے |
گلہ انہیں بھی ہے ملت کے حکمرانوں سے |
مجھے بھی اُن سے خدا واسطے عداوت ہے |
مزاجِ شاہیؔ کو زیبا فقط ہے دار و رسن |
نظامِ عہدِ رواں سے کھلی بغاوت ہے |
معلومات