جب چڑھے گا سر پہ تیرے حسنِ دلکش کا فسوں
کچھ نہیں کام آۓ گا عقل و خرد عزم و جنوں
زور کس کا چلتا ہے اس اسپِ سرکش پر یہاں
دل کے آگے ہے جہاں میں شاہِ جابر بھی نگوں
کوہ و صحرا کے فسانے مے کدے میں کب تلک
گر اجازت ہو تو ساقی ! حالِ دل میں بھی کہوں
لوٹ آئیں ہیں دلِ بے زار سے لینے قصاص
وہ ، کبھی ہم نے کیا تھا جن تمناؤں کا خوں
عشق کیا ٹھہرا جسے دیکھا اسی سے ہو گیا
اب خراجِ حسن میں تو ہی بتا کس کس سے لوں
دل کے ہنگاموں سے اب میں بھی پریشاں ہو گیا
کچھ سمجھ آتا نہیں کہ ایک دل کس کس کو دوں
ہاں کبھی اے دل ! کیے تھے ہم نے بھی دعوے بہت
اب کہاں وہ عقل و دانش اب کہاں جوش و جنوں
سیڑھیوں پر بیٹھ کر میں بھی تکو ہوں چاند کو
شب کے بیداروں میں شاہیؔ ! آج کل کچھ میں بھی ہوں

0
14