شب کی تنہائی میں چپکے سے میں رو لیتا ہوں
جب مجھے ٹوٹے ہوئے دل کا خیال آتا ہے
خشک ہونٹوں پہ تبسم کی کلی کھلتی ہے
چشمِ پر نم میں جو گل رو کا جمال آتا ہے
دل یہ اجڑا ہے تو اجڑے ہی اسے رہنے دے
دیدۂ شوق میں اب میرے کوئی خواب نہیں
دل کی اس عالمِ تنہائی کا سامان کروں
میرے آزردہ خیالوں میں وہ اب تاب نہیں
میرے مایوس ارادے میرا ناکام سفر
غم و اندوہ کی وادی آس و امید کی راہ
دشتِ نومید کی ٹیسیں یاس و حرماں کی کسک
حسرتِ منزلِ ما فات کی سہمی ہوئی آہ
پھر وہی خوابِ جنوں خیز مجھے آنے لگے
جس کی تعبیر فضیحت کے سوا کچھ بھی نہیں
کتنا بدنام کیا جذبۂ الفت نے مجھے
بزمِ ہستی مری عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں

17