شب کی تنہائی میں چپکے سے میں رو لیتا ہوں |
جب مجھے ٹوٹے ہوئے دل کا خیال آتا ہے |
خشک ہونٹوں پہ تبسم کی کلی کھلتی ہے |
چشمِ پر نم میں جو گل رو کا جمال آتا ہے |
دل یہ اجڑا ہے تو اجڑے ہی اسے رہنے دے |
دیدۂ شوق میں اب میرے کوئی خواب نہیں |
دل کی اس عالمِ تنہائی کا سامان کروں |
میرے آزردہ خیالوں میں وہ اب تاب نہیں |
میرے مایوس ارادے میرا ناکام سفر |
غم و اندوہ کی وادی آس و امید کی راہ |
دشتِ نومید کی ٹیسیں یاس و حرماں کی کسک |
حسرتِ منزلِ ما فات کی سہمی ہوئی آہ |
پھر وہی خوابِ جنوں خیز مجھے آنے لگے |
جس کی تعبیر فضیحت کے سوا کچھ بھی نہیں |
کتنا بدنام کیا جذبۂ الفت نے مجھے |
بزمِ ہستی مری عبرت کے سوا کچھ بھی نہیں |
معلومات