وہ دن کہ جب کہ میں کبھی سولہ برس کا تھا
جوشیلہ نوجواں تھا امنگیں جوان تھیں
ہر شوخ کی تھی خواہش ہر شنگ کی طلب
عشق و جنوں کا مارا تھا سیماب سی تڑپ
محروم تھا شرابِ محبت سے میں ابھی
شفاف آئینے سی جوانی تھی اب تلک
لیکن وہی ہوا کہ جو ہوتا ہے سب کے ساتھ
لگ ہی گئی مجھے بھی کسی شوخ کی نظر
اک بنتِ مہر و مہ مجھے یوں آ گئی پسند
جیسے کہ عہدِ طفلی میں بچوں کو ماہتاب
جیسے کہ بے قرار سے ذروں کو آفتاب
امید و شوق و وصل و قرابت کا اشتیاق
لے کر میں آیا والدۂ عزت مآب میں
امّی وہ بنتِ خالہ و عم چاہیے مجھے
وہ حور زادی بنتِ ارم چاہیے مجھے
لیکن جناب سوۓ نصیبا کو کیا کہیں
وقتِ وصالِ یارِ ستم کش سے پیشتر
وہ گل کہ اس پہ ہاتھ کسی اور کا پڑا
خِطبہ مرے نکاح کا ٹھکرا دیا گیا
وہ تیرِ بے ہدف کہ ابھی بے قرار تھا
جس کے اثر سے اب بھی دلِ زار زار تھا
ناگاہ ! نگاہِ شوق میں پھر سے کوئی پری
زلفِ سیاہ سامنے لہرا گئی کوئی
پہلے سے خوب تر رہی یہ شوخ گل بدن
جوش و امنگ پھر مرے رگ رگ پہ چھاگئی
پھر سے وہی وصالِ محبت کا اشتیاق
جس پر کہ اس سے پہلے بنا تھا مرا مذاق
دوڑا میں آیا والدۂ عزت مآب میں
پھر سے سنائی اپنی کہانی جناب میں
دستور و رسم و ریت سے بیگانہ نوجواں
بھٹکا میں دردِ عشق میں جانے کہاں کہاں
ہرچند اس کے عشق میں دل بے قرار تھا
لیکن میں بد نصیب کہ بے روز گار تھا
یک طرفہ جرمِ عشق میں مارا گیا میں پھر
مارا گیا کیا ، شرم سے سنگسار ہوگیا
دنیا کے حسن و عشق سے بیزار ہوگیا
لعنت ہو اس زبان پر جس نے دیا جواب
لختِ جگر سے کہیے نہ دیکھے بلند خواب
کیا کہیے کہ خاموش رہے عمِ محترم
یک لخت ٹوٹا مرے حسیں خواب کا بھرم
ماتم کناں نگاہِ محبت جو پھر ہوئی
دیوار و درِّ دل سے بھی چیخیں نکل گئیں
یہ دل یہ آنکھ لیلیٔ دلّی کی یاد میں
فرشِ رہِ ستم گر بن تو گئی مگر آہ
اس بے نیاز یار پہ روتی ہے آج بھی
تکیہ بھگویے رات کو سوتی ہے آج بھی
خانہ خرابِ عشق کو دیکھی جو ماں نے پھر
حسرت بھری نگاہوں سے شفقت ٹپک پڑی
حسرت زدہ سے لہجے میں کہنے لگی مجھے
لختِ جگر ہزاروں حسینہ ہیں دہر میں
آزردہ دل نہ ہو مرے جانِ جہاں کہ اب
تیرے لیے تو سارے جہاں کی حسین ہے
لاکھوں ارومہ صورت افشاں جبین ہے
لاکھوں حسین پیکر ماہ جبین ہے
یہ سن کے میں نے ادھ مرے لہجے میں یہ کہا
یہ گل یہ گل کی آس بہت خوب ہے مگر
وہ دن گئے کہ میں کبھی عاشق مزاج تھا
ہر شمع رو پہ میں کبھی جب دل نواز تھا
دنیا کے رنگ و روپ سے میں بے نیاز تھا
اب کہ فراق و وصل کی صورت بگڑ گئی
دل کے حسین رت کی بہاریں اجڑ گئیں
وہ شب جو بے قرار تھی جانے کدھر گئی
اب تو جناب والا میں چوبس برس کا ہوں
فرصت کہاں سے لاؤں میں ان واہیات کو
اب کس نظر سے دیکھوں میں شعلہ صفات کو
جس دل پہ مجھ کو ناز تھا وہ زار زار ہے
شانے پہ میرے اب تو غمِ روزگار ہے

1
18
شکریہ

0