سوزِ نہاں سے خانۂ دل خام ہی سہی |
لے آؤ جام و مینا سرِ شام ہی سہی |
تم کو پسند آئے تو سنتے رہو مجھے |
گاتا ہوں میں کہ گانا مرا کام ہی سہی |
لایا گیا ہوں میں بھی ترے جرمِ عشق میں |
بکنے لگا ہوں مصر میں بے دام ہی سہی |
ملنا نہ ملنا مسئلۂ قدر ہے جناب |
کرتا رہا ہوں کوششِ ناکام ہی سہی |
مجنوں صفت ہوں میں کہ مرے سامنے لے آؤ |
صحرا نہ دشت گردشِ ایّام ہی سہی |
کس کو ملی ہے عزت و عظمت اس راہ میں |
یہ سرپھرا بھی عشق میں بدنام ہی سہی |
قائم رکھو یہ سلسلۂ کشمکش اے دوست |
دیتے رہو گو ناوکِ دشنام ہی سہی |
گرچہ ہزاروں کام ہیں دنیا میں میری جاں |
یہ طبع آزمائی ترے نام ہی سہی |
خوش ہوں جو تیرے عشق میں رسوا ہوا ہوں میں |
مجھ پر ترے جنون کا الزام ہی سہی |
شاہیؔ مجھے بھی لذتِ دیدار ہو نصیب |
لطفِ نگاہِ خاص نہیں عام ہی سہی |
معلومات