سوزِ نہاں سے خانۂ دل خام ہی سہی
لے آؤ جام و مینا سرِ شام ہی سہی
تم کو پسند آئے تو سنتے رہو مجھے
گاتا ہوں میں کہ گانا مرا کام ہی سہی
لایا گیا ہوں میں بھی ترے جرمِ عشق میں
بکنے لگا ہوں مصر میں بے دام ہی سہی
ملنا نہ ملنا مسئلۂ قدر ہے جناب
کرتا رہا ہوں کوششِ ناکام ہی سہی
مجنوں صفت ہوں میں کہ مرے سامنے لے آؤ
صحرا نہ دشت گردشِ ایّام ہی سہی
کس کو ملی ہے عزت و عظمت اس راہ میں
یہ سرپھرا بھی عشق میں بدنام ہی سہی
قائم رکھو یہ سلسلۂ کشمکش اے دوست
دیتے رہو گو ناوکِ دشنام ہی سہی
گرچہ ہزاروں کام ہیں دنیا میں میری جاں
یہ طبع آزمائی ترے نام ہی سہی
خوش ہوں جو تیرے عشق میں رسوا ہوا ہوں میں
مجھ پر ترے جنون کا الزام ہی سہی
شاہیؔ مجھے بھی لذتِ دیدار ہو نصیب
لطفِ نگاہِ خاص نہیں عام ہی سہی

1
15
شکریہ محترم

0