اک رنج ہے مسلسل دردوں کا سلسلہ ہے
پھر بھی میں جی رہا ہوں یہ میرا حوصلہ ہے
دنیا بھی جیت لی تو کیا تیر مارا اے دل
سر اس کو کر نہ پایا مجھ کو تو یہ گلہ ہے
کچھ مت کہو اے یارو اس بے کسی کے بت کو
خانہ خراب ہے جو یہ عشق کا صلہ ہے
کوئی جگہ نہیں ہے راہی کدھر کو جائے
ہر رہ گزر پہ یارب یادوں کا قافلہ ہے
گھس گھس کے اس کے غم میں حالت ہوئی یہ اپنی
اک پاؤں کے علاوہ ہر عضو آبلہ ہے
دل ماند پڑ گیا ہے کچھ اس طرح سے شاہیؔ
جوش و جنوں کا پیکر محرومِ حوصلہ ہے

0
6