اشک ریزاں ہیں نگاہیں سینہ ہے آتش فشاں |
مضطرب ہے روح میری لڑکھڑاتی ہے زباں |
دردِ دل کیسے لکھوں کیسے کروں تجھ سے بیاں |
کیا یہ ممکن ہے کہ ہو مسطور بھی آہ و فغاں |
جرأتِ گفتاری پر آمادہ کرتا ہے مگر |
میں جو اک حساس دل سینے میں رکھتا ہوں نڈر |
. |
آہ ! اے چشمِ فلک دیکھا نہیں کل کیا ہوا |
شامؔ و ترکؔی کے مسلماں کا ہوا کیا ماجرا |
وقت سے پہلے ہوا ہنگامۂ محشر بپا |
کیا قیامت ان پہ گذری ہے ذرا تو ہی بتا |
سنگ دل ! اب تَو ذرا ان پر بھی تُو آنسو بہا |
درد کو قطروں کی صورت میں بہا تو بھی ذرا |
. |
گرگئی وہ بازوۓ مومن کی جو تعمیر تھی |
وہ سراپا خوف و دہشت کی بنی تصویر تھی |
کیا سماں تھا ہر طرف بکھری ہوئی تدبیر تھی |
آہ ! شیداؤں پہ تیرے خندہ زن تقدیر تھی |
ایک لمحے میں زمیں پر کیا سے کیا کچھ ہو گیا |
دیکھتے ہی دیکھتے پل بھر میں سب کچھ کھو گیا |
. |
ایک ننھی سی پری سہمی ہوئی روتی ہوئی |
جو سرِ دیوار دب کر تن بدن زخمی ہوئی |
آنکھ میں آنسو نہیں گو دل سے وہ روتی ہوئی |
جو تنِ نازک پہ اپنے کوہِ غم کو سہتی ہوئی |
کررہی تھی اپنے رب سے وہ گلہ ، شکوہ مگر |
ننھی سی اس جان کی لیکن کسے کیا تھی خبر |
. |
آہ ! یہ نظارۂ دل سوز محشر کی گھڑی |
کیسی کیسی شان و شوکت خاک میں یوں مل گئی |
آبروئے دینِ احمدؔ آج خاکستر ہوئی |
غیر قوموں کے لیے یہ باعثِ فرحت ہوئی |
تھا کبھی آباد انہیں سے یہ جہان رنگ و بو |
آج لیکن ہرطرف ہے شور و غوغا ہاۓ و ہو |
. |
ملتِ مرحوم کی اب کیا سناؤں داستاں |
خاک آلودہ نشیمن خاک و خوں ہیں آشیاں |
باغ ویراں ہوگیا جب سے اٹھا ہے باغباں |
غنچہ و گل ہو گیے سب آہ ! عبرت کے نشاں |
کیا یتیموں سے کوئی یوں بھی خفا ہوتا ہے کیا |
آنِ واحد میں کسی پر آسماں ڈھاتا ہے کیا |
. |
گرچہ یہ امت تری رحمت کے اب قابل نہیں |
گرچہ اس امت سے تجھ کو کچھ بھی اب حاصل نہیں |
گرچہ اس امت میں اب دیرینہ وہ محفل نہیں |
گرچہ اس امت کے سینے میں تڑپتا دل نہیں |
ہاں مگر تیرے ہی در پر یہ جھکاتی ہے جبیں |
نام لیتی ہے ترا ہی تجھ سے یہ کٹتی نہیں |
. |
نام لیوا کیوں ترے ہیں آج آزردہ حزیں |
کیا کوئی اپنوں سے ہوتا ہے خفا یوں بھی کہیں |
ماسوا تیرے نہیں ہے جس کا کوئی ہم نشیں |
جانتا ہے تو بھی لیکن پھر ترحم کیوں نہیں |
شکوہ سنجی کی روش اپنایے نہ پھر کیوں صبا |
کیوں گلہ اس کو نہ ہو تجھ سے ذرا تو ہی بتا |
. |
کیا محمدؔ ہی کی امت ہے کہ اس قابل خدا |
برق و بجلی آشیانوں پر گرے ان کے سدا |
ننھی ننھی جان کی آتی نہیں تجھ تک صدا |
سچ یہ ہے کہ اب مسلماں کا نہیں کوئی خدا |
امتِ مرحوم کی تجھ کو نہیں پروا ذرا |
یوں تو دعوے تھے ترے محبوب سے سب سے جدا |
. |
قومِ باطل کو جہاں میں آبرو حاصل ہوئی |
وہ زمیں پہ رہ کے بھی افلاک کے قابل ہوئی |
وہ جہانِ رنگ و بو میں زینتِ محفل ہوئی |
قیس کی لیلی بھی آخر جلوۂ محمل ہوئی |
ایک میری قوم ہی ہر موڑ پر رسوا ہوئی |
رزم ہو یا بزم و محفل ہر جگہ پسپا ہوئی |
. |
قتل و غارت تھی مقدر اور اب یہ زلزلہ |
کب تلک چلتا رہے گا اے خدا یہ سلسلہ |
کیوں نہ ہو اس قوم کو تیری خدائی سے گلہ |
کیا کوئی اپنوں کو دیتا ہے بھلا ایسا صلہ |
کل تلک یہ قوم ہی تھی تیری منظورِ نظر |
آج کیوں یہ پھر رہی ہے دربدر شوریدہ سر |
. |
عادل و منصف کا شاید ہاں، یہی دستور ہے |
کل تلک شہ زور تھی جو آج وہ مجبور ہے |
ہے سراپا درد و حسرت ہر نفَس رنجور ہے |
ایک میری قوم ہی مغضوب ہے مقہور ہے |
جب تلک یہ قوم تیرے کام کے لائق رہی |
تھی تری رحمت کے قابل اب مگر یہ مٹ گئی |
. |
ہے زباں پر شکوۂ بیداد آخر کیا کروں |
لٹ گئی ہے تیری امت ہے سراپا خاک و خوں |
ہر طرف بکھری ہوئی ہے ہر طرف خوار و زبوں |
دل میں میرے غم ہی غم ہیں ایک غم ہو تو کہوں |
آہ ! اے پیارے نبی جی ! آپ کو روتا ہوں میں |
قطرہ قطرہ آنکھ میں آنسو لیے سوتا ہوں میں |
. |
کب زمیں کو جرأتِ پیکار ہوتی تھی یہاں |
برق و بجلی کانپتی تھی کانپتا تھا آسماں |
جب تلک تو تھا جہاں میں تھا خدا بھی مہرباں |
رحمتوں کو لے کے آتا خود زمیں پر آسماں |
آہ اے محبوب ! اب روتا ہوں تیری دید کو |
ان گریباں چاک کی خاطر سرورِ عید کو |
ایک عزیز کی فرمائش پر فی الحال اسے شیئر کررہا ہوں تاہم کام ابھی باقی ہے ۔۔۔۔۔۔ سلسلہ جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ |
(شاہؔی تخیلات) |
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی |
معلومات