آہ ! اے میری کتاب ! آہ ! اے میری کتاب
اے تری امید میں ، میں کھا رہا ہوں پیچ و تاب
رات و دن تیرے تصور میں سراپا اضطراب
آہ ! اے میری کتاب
اے مری تقدیر کا روشن ستارہ جگمگا
ہیں بہت امید تجھ سے اک جہاں کا انقلاب
آہ ! اے میری کتاب
عصرِ نو کی رات میں کافی تنک تابی تری
اے شبِ ظلمت کے قاتل ! سرخ رو روشن شہاب
آہ ! اے میری کتاب
دل کے آئینے میں تیری اک حسیں تصویر ہے
جس کی شوخی پر ہے شیدا اہلِ دل کا انتخاب
آہ ! اے میری کتاب
شوخئ تعبیر مجھ کو کچھ نظر آتی نہیں
آنکھ کو سونے نہیں دیتا مرا دیرینہ خواب
آہ ! اے میری کتاب
ہے عدم سے آشنا موجود سے بے گانہ کیوں
اے مری دنیا کے روشن آفتاب و ماہتاب
آہ ! اے میری کتاب
پردۂ تخلیقِ میں ترا بھی ہو کوئی ظہور
اے زمینِ ایشیا کے آسماں کا آفتاب
آہ ! اے میری کتاب
ہر نفس بیدار رکھتی ہے مجھے یہ جستجو
لحظہ لحظہ یہ مرے اعصاب کو ہے اب عذاب
آہ ! اے میری کتاب
ایک مدت سے ہوں بیٹھا آنکھ فرشِ رہ کیے
اے مرے محبوب ! اب تو ہوجا مجھ پر بے نقاب
آہ ! اے میری کتاب
وصل کی امید میں بیتاب جاں رہتا ہوں میں
ہجر کے آزار سے ہے تلخ اب میرا شباب
آہ ! اے میری کتاب
اب نہیں منظور مجھ کو جستجوۓ صبح و شام
ایک عرصے سے ہوا جاتا ہوں میں خانہ خراب
آہ ! اے میری کتاب
گلشنِ ہستی مرا ویراں ہوا جاتا ہے اب
ہر طرف خاروں کا ڈیرا ہے ، کہاں کوئی گلاب
آہ ! اے میری کتاب
بربطِ دل نغمۂ امید سے مایوس ہے
سرد پڑتے جارہے ہیں زندگانی کے رباب
آہ ! اے میری کتاب
بجھ رہا ہے دل مرا مے خانۂ عالم کو دیکھ
پھر پلادے ساقیا ! رندوں کو اپنی مئے ناب
آہ ! اے میری کتاب
اے سراپا ناز و نازش ! اے مرے فخر و غرور
اے مرے حسنِ تخیل ! شاہکارِ لا جواب
آہ ! اے میری کتاب
ہے دعا گو تیرے حق میں شاہؔیٔ بیتاب آج
آۓ جب بھی تو جہاں میں ہو مقدر مستجاب
آہ ! اے میری کتاب

9
58
شکریہ دوست

بعدِ فجر مسجدِ قایم دارالعلوم دیوبند

کیا ہی اعلی درجہ کا تخیل ہے شاہیؔ (غالب ثانی) صاحب
اللہم زد فزد

بہت شکریہ محترم ❣️

آپ کی فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہے ؟

نہیں ابھی زیر تعلیم ہوں یہیں دار العلوم دیوبند میں ہفتم عربی میں

0
بحمدللہ تعالی میں بھی اس سال کافیہ کی جماعت میں ہوں
ٹھکریباڑ ی مدرسہ میں

آپ نے شعری کہاں سے سیکھیں

بس از خود کچھ اقبالیات کے اشعار یاد کیے تھے